علما و مشائخ یوم آزادی و یوم جمہوریہ

ہمارا وطن: اس کی ازادی میں علمائے اہل سنت کا کردار

ازقلم: عبدالکریم مصباحی شراوستی
استاذ:جامعہ اہل سنت غریب نواز پرتواڑہ امراوتی مہاراشٹرا

مغلیہ دور حکو مت میں ہندوستان سونے کی چڑیاکہلاتا تھا پورا ملک تجارت اور حرفت وصنعت کے ہر طرح کے اسباب سے لبریز تھا اہل وطن اسباب تجارت سے پورے طور پر مطمئن اور خوشگوار زندگی سے لطف اندوزہو رہے تھے پورے ملک پر سر سبز وشادابی کا ایسا رنگ چڑھا ہوا تھا کہ یہاں کی زمینیں سونا اگلنے کے مترادف کہلا ئی جاتی تھیں ایسی صورت میں اہل وطن کے سوا لوگوں کی بد نگاہی کا شکار ہونا ایک عام سی بات تھی لھذا سب سے پہلے ۸۹۴۱؁ء میں پرتگال کا سوداگر،، واسکوڈی گاما،،نے لالچ بگری نظروں سے بھارت کی طرف دیکھا تجارت کی غرض سے ہندوستا ن آیا اور تجارت کے ذریعہ بہت نفع حاصل کیا۔
ا س کے بعد بے شمار ممالک کے تاجروں کی آمد ورفت کا تار ہندوستان سے جڑگیا تاجر آتے رہے اور نفع اٹھاکر جاتے رہے مگر سونے کی چریا کہلائے جانے والے ہندوستان پر برطانوی تاجروں کی نیت خراب ہو گئی تجارت کے علاوہ کچھ اورکر گزرنے کا منصوبہ بناکر اس وقت کے بادشاہ،،نور الدین جہانگیر،،کی اجازت سے ساحلی علاقوں میں اپنے ذاتی مکانات بنالئے اب کیا تھا یہ سلسلہ چلتارہا برطانوی تاجر جابجاں علاقو ں کے حاکم وعیش پسند بادشاہوں کے دربار میں جی حضوری،منت وسماجت اور خاطر داری کرکے اپنے رسوخ بڑھاتے اور پیر جماتے رہے حتی کہ ۷۰۷۱؁ء میں مختلف مراکز کویک کرکے،،ایسٹ انڈیا،،نامی کمپنی کی بنیاد رکھی اس سے ان کی طاقت بڑھتی و مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی گئی پیر جم جانے اور طاقت مضبوط ہوجانے کے بعد سب سے پہلے انہوں نے،،نواب سراج الدولہ،،کو اپنی چال بازی ومکاری کے زریعہ شکست فاش دیکر بنگال پر اپنی حکومت قائم کی.بنگال،ہندوستان میں عیسائیوں کے سیاسی دور کا پہلا پڑاو تھا بنگال نیز چند اور علاقوں پر قبضہ ہوجانے پر انگریز اپنی پرانی چال،لڑاؤ اور حکومت کرو،کے پیش نظر نوابوں اور راجاؤں کو آپس میں لڑاکر تھوڑا تھوڑا کرکے قبضہ کرتے رہے یہاں تک کہ ۶۵۸۱؁ء میں پورے ہندوستان پر اپنا سکہ جمالیا۔
یہودونصاری کی ایک فطری عادت رہی ہے کہ جس جگہ بھی وہ بود وباش اختیار کرتے ہیں تو وہاں کے حالات اور آس پاس کے لوگوں کو اپنے مذہبی رنگ میں رنگنے کی کوشش کرتے ہیں ٹھیک انہیں خصلتوں کا سہارا لیتے ہوئے ہندوستان کو بھی یہودیت وعیسائیت کے رنگ میں رنگنے کے لئے ہر سمت جال بچھا دیا اور کچھ نئے احکامات جاری کئے۔
(۱)پہلا فرمان یہ تھا کہ ہندوستان میں جو مدارس اور جامعات اسلامی تعلیمات کی نشرواشاعت میں منہمک ومصروف ہیں انہیں فورا بند کر دیا جائے اور کثرت سے اسکول کھولے جائیں جوبرطانوی حکومت کے زیرانتظام ہوں گے اسکول میں بلا تفریق مذہب وملت صرف ایک تعلیم ہوگی جو ہرمذہب کے ماننے والوں کو پڑھنا ہوگا اس تعلیم کا شڈول کچھ اس طرح تھا کہ شروع میں دوسرے مضامین اور سبجیکٹ تھے لیکن آخرمیں جاکر عیسائیت کا زہر گھلا ہوا تھا۔
(۲) دوسرا فرمان یہ تھا کہ ہندوستان میں جتنی بھی طرح کی پیداوار،اناج،غلے ا ور معدنیات ہیں وہ سب کے سب ہمارے ہاتھوں فرو خت کی جائیں کوئی شخص خود براہ راست فروخت نہ کرے تاکہ پیداوار پر ہمارا کنٹرول رہے اور ہم جس طرح چاہیں نرخ میں کمی وزیادتی کرکے فروخت کریں۔
(۳) تیسرا حکم یہ تھا کہ کوئی بھی مسلمان شخص ختنہ نہیں کراسکتا۔(۴) چوتھا حکم یہ نافذ کیا کہ عورتوں کوحجاب پہن کر باہر نکلنے کی اجازت نہ ہو گی۔
(۵) پانچواں حکم یہ جاری کیا کہ کچھ گولیوں کے منہ پر سور کی چر بی اور کچھ کے منہ پر گائے کی چربی لگائی جائے اور سور کی چربی والی گولیاں مسلمان فوجیوں کو دی جائیں اور گائے کی چربی والی گولیاں غیر مسلم فوجیوں کو دی جائیں اور دونوں کو منہ سے کھولنے کو کہاجائے اس سے وہ مذہبی جذبات کے ہاتھوں مغلوب ہو کر اپنا مذہب چھوڑکر عیسائی مذہب قبول کرنے پر مجبو ر ہو ں گے۔ (۳) تیسرا حکم یہ تھا کہ کوئی بھی مسلمان شخص ختنہ نہیں کراسکتا۔(۴) چوتھا حکم یہ نافذ کیا کہ عورتوں کوحجاب پہن کر باہر نکلنے کی اجازت نہ ہو گی۔
(۵) پانچواں حکم یہ جاری کیا کہ کچھ گولیوں کے منہ پر سور کی چر بی اور کچھ کے منہ پر گائے کی چربی لگائی جائے اور سور کی چربی والی گولیاں مسلمان فوجیوں کو دی جائیں اور گائے کی چربی والی گولیاں غیر مسلم فوجیوں کو دی جائیں اور دونوں کو منہ سے کھولنے کو کہاجائے اس سے وہ مذہبی جذبات کے ہاتھوں مغلوب ہو کر اپنا مذہب چھوڑکر عیسائی مذہب قبول کرنے پر مجبور ہوں گے۔

جب اس طرح کے حالات پیدا ہوئے انسانوں کو طرح طرح کی ظلم وستم کی چکی میں پیساجانے لگا اپنے ہی ہاتھوں ہندوستان کی آب پاشی کرکے سرسبز وشادابی کا رنگ چھڑکنے والے اہل وطن کے لئے اپنا ہی جنت نما وطن عزیز جہنم کی مثال پیش کرنے لگا، کہ چین وسکون اور مذہبی آزادی مسلوب ہو چکی تھی اپنی رائے،دلی جذبات اور افکارونظریات کا اظہار ارتکاب جرم کے مترادف ہوچکا تھااپنے ہی گھرو وطن میں رہتے ہوئے بھی پنجرے میں قید پرندے کی طرح دم گھٹنے لگا تھا ایسی صورت میں تمام اہل وطن کی خواہش یہی تھی کہ نامساعدحالات سے ہمیں آزادی حاصل ہو اور تن کے گورے،من کے کالے ظالم انگریزوں سے چھٹکارا ملے مگر سوال یہ تھا کہ شروعات کہاں سے ہو اور اسکا آغاز کون کرے؟اس طرح کا پس منظر دیکھ کر سب سے پہلے جس نے جنگ آزادی کی شروعات کی اور اہل وطن کے دلو ں میں تحریک آزادی کی روح ٖپھونکی وہ مرد قلندر بطل حریت علامہ فضل حق خیرابآدی ہیں، یہ علامہ فضل حق خیرابآدی کون ہیں؟شجاعت وبہادری کے پیکر جمیل خلیفہ دوم سیدنا عمرفاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے بتیسویں
پشت میں پیدا ہونے والے شہزادے ہیں آپکی رگوں میں خون عمر شامل تھا،شجاعت وبہادری،جرت وہمت بطور وراثت آبا واجداد کی طرف سے ملی تھی اسی لئے علامہ موصوف نے بڑی بیباکی وجراٗت کا مظاہرہ کرتے ہوئے۷۵۸۱؁ء میں انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتوی صادر فرمایا،اپنے وقت کے(۳۳) جید علمائے کرام سے اس کی تصدیق بھی کرائی جمعہ کے دن دہلی کی جامع مسجد میں دوران تقریرظا لم بر طانوی حکومت کے خلاف مستعد وکمربستہ ہونے کی لوگوں کو پرزور نصیحت کی،علامہ موصوف کی کاوشوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ پورے ملک میں جنگ آزادی کی لہر دوڑگئی۔
اس کے علاوہ سیکڑوں علمائے اسلام،پیران طریقت اور حریت پسند باشندگان ہندنے اپنے اپنے طور پر جنگ آزادی میں مال وزر،دولت وثروت اور جانو ں کا نظرانہ پیش کر کے اپنی حب الوطنی کا ثبوت فراہم کیا ہے اپنے لہو سے چمنستان ہند کی آب پاشی کرکے آنے والی نسلوں میں وطن کے لئے جانثاری کی روح پھونکی ہے آخر میں ہم اپنے آبا واجداد کی قربانیوں پر انہیں خراج عقیدت و تحسین کا گلدستہ پیش کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ مولائے کریم وطن عزیز کیلئے بہے ہوئے خون کا ا نہیں بدلہ عطافرمائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے