تحریر: محمد اشرف رضا قادری
مدیر اعلیٰ سہ ماہی امین شریعت
عامۃ المسلمین تک اسلامی احکام و مسائل اور اسلامی فکر و نظر کو پہنچانے کے لیے تقریر وخطابت ایک اہم ذریعہ ہے۔ بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو لکھنے پڑ ھنے سے عاری ہوتے ہیں ۔وہ کتب و رسائل سے استفادہ نہیں کرسکتے ۔ایسی صورت میں وعظ وخطابت ہی واحد ذریعہ ہے کہ وہ اس کے ذریعہ ناخواندہ طبقات اسلامی تعلیمات سے آگاہ وآشنا ہو سکیں۔
حضور امین شریعت حضرت علامہ مفتی محمد سبطین رضا خاں علیہ الرحمۃ و الرضوان نے حضور مفتیٔ اعظم ہند کے ایماء پر اپنی تبلیغی خدمات کے لیے چھتیس گڑھ کے علاقے کو منتخب فرمایا ۔اس عہد میں اس ریاست کے مسلمان اسلامی تعلیمات سے زیادہ واقف و آشنا نہیں تھے ،اس لیے حضور امین شریعت قدس سرہ العزیز نے خطیبانہ شان و شوکت کو برقرار رکھتے ہوئے بہت آسان طرز پر اور انتہائی سہل انداز میں عوام مسلمین کو اسلامی تعلیمات سے روشناس کرنے کی سعی بلیغ فرمائی۔
حضور امین شریعت علیہ الرحمہ نے اپنی تبلیغی ،تقریری ،تعمیری و تحریکی خدمات کے ذریعہ ریاست چھتیس گڑھ میں انقلابی کیفیت پیدا فرما دی تھی ۔جس کے عمدہ اثرات ونتائج دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں ۔آپ نے اپنی زندگی کے آخری ایام تک ریاست کی مذہبی خدمات انجام دیتے رہے ۔
تقریر وخطابت بھی اسلامی تعلیمات کی نشر و اشاعت کے اہم ذرائع میں سے ہے۔ خطابت کی فنی حیثیت بہت قدیم ہے ۔ میدان جنگ میں بھی خطبا اور شعرا نے مجاہدین کے خون کو گرمایا ہے۔ اس فن کی مدد سے بڑے بڑے معرکے سر کیے گئے ہیں۔ بے عمل اور غلط راہ پر چلنے والوں کو تقریر و خطابت نے راہ پر لگا دیا ہے۔ ان کے اندر عملی جذبات کو بر انگیختہ کیا اور انہیں عمل پر آمادہ کیا ،پھر کم ہمت لوگوں نے بھی وہ کارنامے کر دکھائے کہ دنیا میں ان کی مثالیں پیش کی جاتی ہیں۔
آج بھی اہل سنت وجماعت میں جادو بیان مقررین و خطبا موجود ہیں ۔ان کی توجہ کامل ہو جائے تو قوم کے اندر بہت کچھ سدھار ہوسکتا ہے ،لیکن اب ہمارے خطبا و مقررین کی زیادہ توجہ قومی مزاج کی طرف ہوتی ہے ،اور وہ دعوت دینے والوں کی خوشی و ناخوشی کا لحاظ زیادہ کرتے ہیں۔ اس پریشان کن ماحول میں خطبا و مقررین آزادانہ طورپر اپنے دل کی باتوں کو پیش نہیں کر سکتے ۔ انہیں ہمہ وقت یہ خوف ستاتا ہے کہ اگر ہم نے اصحاب جلسہ کی گزارشوں پر دھیان نہیں دیا اور قوم نے ہمارے خطاب کو ناپسند کر دیا تو پھر آئندہ ہمیں یہاں مدعو نہیں کیا جائے گا ۔
چوں کہ انہوں نے میدان خطابت کو ایک پیشہ کے طور پر اختیار کر لیا ہے ،اس لیے وہ دین و مذہب کی صحیح تبلیغ واشاعت کی بجائے اپنے لیے ماحول سازی کرتے ہیں۔ موجودہ صورت حال میں تقریر وخطابت کو عوام الناس کی پسند نے بہت حدتک متاثر کر رکھا ہے۔ اس بارے میں جلسہ و کانفرنس کے منتظمین کو بھی غور کرنا چاہئے ۔
حضور امین شریعت قدس سرہ العزیز نے ایسے لوگوں کے در میان تبلیغی و تقریری خدمات سر انجام دی تھیں ،جو علم دین سے آراستہ نہیں تھے ،اور اردو زبان کی مشکل عبارتیں اور جملے بھی ان کے لیے ناقابل فہم ہو سکتے تھے ،اس لیے بہت سہل انداز میں آپ نے خطاب فرمایا ۔
حضورامین شریعت علیہ الرحمہ کے تمام خطابات اور تقاریر محفوظ نہیں رہ سکیں۔ ابھی ہمیں صرف پانچ ہی تقاریر کا ریکارڈ دستیاب ہوسکا، جسے فقیر نے افادئہ عامہ کے لیے ’’خطبات امین شریعت‘‘ کے نام سے تحریری شکل دے دی ہے ۔ مزید خطابات اگر کہیں محفوظ ہیں تو ان کو حاصل کرنے کی کوشش ہوگی ۔
حضور امین شریعت علیہ الرحمہ نے مشکل مسائل کو بھی محاکاتی انداز میں مثالوں اور حکایات کے ذریعہ پیش کرنے کی کوشش فرمائی ہے۔ آپ کی تقریروں میں معنویت اور مقصدیت پائی جاتی ہے۔ آپ موقع بموقع سامعین کو عمل صالح کے لیے ابھارتے ہیں اور آسان لب ولہجے میں انہیں عقائد حقہ کی تفہیم فرماتے ہیں ۔
حضور امین شریعت علیہ الرحمہ کو خانوادئہ رضویہ سے نسبی تعلق بھی ہے اور ان کے باطن میں مسلک اعلیٰ حضرت کو فروغ دینے کا جذبہ بھی وافر مقدار میں موجزن ہے۔ وہ اپنی تقریروں کے آغاز میں عام طور پر حضورسیدی اعلیٰ حضرت قدس سرہ العزیز کے اشعار پیش فرماتے اور اس کے بعد اصل بحث کی جانب قدم بڑھاتے۔ سنت نبوی کی پابندی اور اسلامی تہذیب و معاشرت کی جانب لوگوں کو مائل کرنے کی کوشش فرماتے ۔ آپ اپنے وعظ و خطاب میں سامعین کی پسند و ناپسند کا لحاظ نہیں کرتے ،بلکہ قوم کے لیے جو فائدہ بخش امور ہوتے ،وہ بیان فرماتے ۔آپ کے خطابات سامعین کو متاثر کرتے ،اور سامعین کا ایک بڑاطبقہ آپ کے فرمودات اور نصیحتوں پر عمل کی کوشش کرتے ،بلکہ آپ کی تبلیغی خدمات ہی کا یہ نتیجہ اور اثر ہے کہ آج ریاست چھتیس گڑھ اور اس سے منسلک صوبے مدھیہ پردیس، اڑیسہ، آندھرا پردیس، مہاراشٹرا جھارکھنڈ اور بہار کے مسلمانوں میں بہت کچھ تبدیلیاں نظر آ رہی ہیں ۔آپ کے قدم کی برکتوں کو ریاست بھر میں محسوس کیا جا سکتا ہے۔ آپ نے جس طرح قوم مسلم کو سنت و شریعت کی پابندی کا درس دیا ،اسی طرح آپ خود بھی سنت نبوی اور شریعت اسلامیہ کے پابند تھے ۔یہ سلسلہ آپ کے عہد طفولیت سے شروع ہوا ،اور تادم آخرآپ نے سنت وشریعت کا پاس و لحاظ رکھا ۔آپ کی حیات مستعار سنت مصطفوی کے سانچے میں ڈھلی ہوئی تھی ۔پابندی شرع کے علاوہ آپ ان خوبیوں سے بھی آراستہ اور مزین تھے ،جو کمالات اور اخلاق و کردار کسی انسان کو ایک اعلیٰ انسان بنا دیتے ہیں ۔ اس حقیقت سے وہ تمام لوگ واقف وآشنا ہیں ،جنہوں نے حضور امین شریعت قدس سرہ العزیز کی زندگی کا کچھ حصہ پایا اور زندگی کے کچھ حصے میں انہیں حضرت کی رفاقت و معیت حاصل رہی ۔
مجھے حضور امین شریعت قدس سرہ العزیز کی زندگی کو بہت قر
یب سے دیکھن
ے کا موقع ملا ۔ میں نے ممدوح گرامی کی خدمت میں اپنی زندگی کے گیارہ سال گزارے۔ آپ کے شب و روز اور لیل ونہار دیکھا ۔سفر و حضر میں آپ کے ساتھ رہنے کا موقع ملا۔ میں نے ہمیشہ آپ کو شریعت اسلامیہ کی پیروی کرتے دیکھا ۔آپ کوسنت نبوی کی پابندی کرتے دیکھا ۔ ہم نے ان حقائق کو کسی کی زبان سے نہیں سنا ہے ،بلکہ ان تمام کو اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا ۔
ہم حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ و الرضوان کی زیارت نہیں کر سکے۔ آپ کی حیات کو ہم نہیں پاسکے ،لیکن ہم نے انہیں پڑھا ہے ۔ان کی زندگی کی مختلف جہات کو کتابوں میں دیکھا ہے۔حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃوالرضوان شریعت اسلامیہ کے احکام و آداب کے پابند اور انتہائی تقویٰ شعار تھے ۔ ایسے متقی کہ ماضی قریب میں ان کی مثال نہیں ملتی۔ ملک کے بے شمار لوگوں نے ان کے تقویٰ و تقدس کو یکھ کر شریعت اسلامیہ کی پابندی اختیار کرلی ۔وہ اسلامی شریعت کے آئینہ دار تھے ۔ان کی کوئی مثال موجود ہے۔
متقی بن کر دکھائے اس زمانے میں کوئی
ایک میرے مفتی اعظم کا تقویٰ چھوڑ کر
حضور امین شریعت ،حضور مفتی اعظم قدس سرہ العزیز کے عکس جمیل تھے۔ حضور امین شریعت کی اداؤں میں حضور مفتی اعظم کی زندگی کی جھلک نظر آتی تھی ۔آپ مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ کی تصویر مجسم تھے ۔آپ کی زندگی کی مختلف جہات میں حضور مفتی اعظم کے کردار کی خوشبو نظر آتی ہے۔ آپ نے اپنی زندگی اسلام وسنیت کے فروغ و استحکام میں صرف فرما دی ۔آپ نے بہت ہی سادگی کے ساتھ اپنی زندگی گزاری ۔ حضور امین شریعت نے پچاس سال سے زائد مدت تک اسلام و سنیت کی خدمت سرانجام دی۔ احقاق حق وابطال باطل کا فریضہ نبھاتے رہے ۔زندگی کی راحت و آسائش کے سامان وافر مقدار میں مہیا تھے ۔آپ چاہتے تو اپنی زندگی کو چین وسکون کے ساتھ گزار دیتے ،لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا ۔اپنی زندگی کا ہر لمحہ آپ نے خدمت دین کے لیے وقف فرما دیا تھا ۔ آپ کی زندگی جہد مسلسل کا نام ہے۔ آپ نے ہمیشہ اپنے آپ کو دین کے کسی کام میں مصروف رکھا ۔
حضور امین شریعت دین کی ترویج و اشاعت اور فروغ سنیت کے لیے آپ تگ و دو فرماتے رہے۔ آپ نے تنہا جو خدمات انجام دی ہیں ،ہمارے لیے اجتماعی طور پر بھی ویسی خدمات انجام دینا مشکل ہے۔
حضور امین شریعت نے بھی چھتیس گڑھ میں انتہائی ہمت وجرأت اور استقلال واستقامت کے ساتھ بدعتوں کو مٹانے کی سعی بلیغ فرمائی ۔یکے بعد دیگر ے بدعتیں ختم ہوتی گئیں اور اسلامی روایات زندہ ہونے لگیں۔آپ نے وہاں کے مسلمانوں کو اسلام کی صحیح شکل اور اسلامی احکام سے روشناس فرمایا ۔رب تعالیٰ کی کرم فرمائی شامل حال رہی، اور وہاں کے لوگ راہ حق پر آتے گئے ۔آج ان علاقوں میں جو اسلامی بہار نظر آتی ہے اور لوگ سنت و شریعت کے پابند نظر آتے ہیں ۔یہ حضور امین شریعت کی محنتوں کا ثمرہ اور نتیجہ ہے۔
آپ تقریر و خطابت اور رشد و ہدایت کے لیے ملک کی مختلف ریاستوں میں تشریف لے جاتے ۔آپ کی یہ خصوصیت بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ جو ایک بار آپ کی زیارت سے سرفراز ہو جاتا ،وہ اپنے گناہوں سے تائب ہو جاتا ،اور فرائض و واجبات کا پابند ہوجاتا ۔وہ شریعت اسلامیہ پر عمل پیرا ہو جاتا ۔
حضور امین شریعت قدس سرہ العزیز نے کبھی بھی اصحاب ثروت وارباب دولت کے دربار میں حاضری نہیں دی ،بلکہ بڑے بڑے اصحاب ثروت آپ سے شرف نیاز حاصل کرنے آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے رہے ۔آپ ہمیشہ غریبوں کی جانب متوجہ رہے ۔ ان سے ملاطفت فرماتے ۔انہیں دعائیں بھی دیتے اور ضرورت کے وقت ان کا مالی تعاون بھی فرماتے ۔آپ اپنے مریدین و معتقدین کو بھی غربا پروری کا درس دیتے۔ آپ کی زندگی امام اہل سنت اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس شعرکی آئینہ دار تھی :
کروں مدح اہل دول رضا پڑے اس بلا میں میری بلا
میں گدا ہوں اپنے کریم کا میرا دین پارئہ ناں نہیں
حضور امین شریعت علیہ الرحمۃ و الرضوان کی زندگی کی مختلف جہات ہیں ۔اس مختصر تحریر میں تمام گوشوں پر روشنی ڈالنا ممکن نہیں ۔آپ کے بہت سے حالات ’’امین شریعت نمبر‘‘میں مرقوم ہیں ۔ملک کے مشہور قلم کاروں نے ان کی حیات و خدمات کو رقم فرمایا ہے۔شائقین اپنی تشنگی بجھانے کے واسطے اس نمبر کا مطالعہ کریں ۔
حضور امین شریعت علیہ الرحمہ عوام و خواص میں بے حد مقبول تھے ۔ ملک بھر میں جلسوں اور کانفرنسوں میں مدعو کیے جاتے تھے ۔آپ کا دورہ ملک کی مختلف ریاستوں میں جاری رہتا ۔ آپ ناصحانہ انداز میں عمدہ خطاب فرماتے تھے ۔
حضورامین شریعت علیہ الرحمہ نے بیعت وارادت کا فریضہ بھی انجام دیا ۔ بہت سے لوگ پیری مریدی کے شعبہ کو اپنے مادی فوائد کے لیے اختیار کرتے ہیں ۔ لوگ پیری مریدی کوذریعہ معاش بنالیتے ہیں ۔ مریدوں کے رحم وکرم پر اپنے آپ کو چھوڑ دیتے ہیں۔ ایسی صورت میں یہ لوگ اپنے مریدین کو پابندیٔ شرع کی بھی نصیحت وہدایت کرنے سے گریز کرتے ہیں ۔ان کواپنے مریدین کی ناراضگی کا بڑا خیال رکھنا ہوتا ہے۔ عجب حال ہوچکا ہے۔
حضور امین شریعت قدس سرہ العزیزنے محض سلسلۂ طریقت کے فروغ اور مسلمانوں کو حضرات اولیائے کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کے سلسلہ زریں سے منسلک کرنے کے واسطے اس میدان میں قدم رکھا تھا ۔ ہند و بیرون ہند میں لاکھوں کی تعداد میں آپ کے مریدین پائے جاتے ہیں ۔ آپ کے خلفا کی بھی ایک طویل فہرست ہے۔ معتقدین کی بہت بڑی تعداد ملک وبیرون ملک میں موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم تمام کوحضورامین شریعت علیہ الرحمۃ والرضوان کے فیوض وبرکات سے مستفیدفرمائے :(آمین)
یا الٰہی کر دعا اشرفؔ رضا کی یہ قبول
تربتِ سبطین پر کھلتے رہیں رحمت کے پھول