علما و مشائخ

سلطان الوعظین حضرت علامہ شاہ سید محمد ہدایت رسول رامپوری

ازقلم: اے۔ رضویہ، ممبئی
مدرسہ جامعہ نظامیہ صالحات کرلا

اگر ہے بلبل شیراز سعدی
ہدایت بلبل ہندستان ہے

سر زمین پاک وہند کے افق پر انیسویں صدی عیسویں کے آواخر اور بیسویں صدی کے اوائل میں جو عظیم علمی و دینی اور سیاسی شخصیات ابھری ہیں ان میں علامہ مولانا ہدایت رسول صاحب قادری برکاتی علیہ الرحمة والرضوان کی ذات بھی اہم کردار کی حامل ہے۔
مولانا ہدایت رسول قادری ابن مولانا سید محمد احمد رسول قادری (غالباً) ١٨٢٠ میں رامپور میں پیدا ہوۓ آپ کے آباء واجداد سادات بخارا سے تھے۔ آپ کے جد امجد مولانا شاہ سید عبدالرسول علیہ الرحمہ بخارا سے ہجرت کرکے سورت پھر رامپور آکر بس گئے۔اور وہیں وصال فرمایا۔
مولانا ہدایت رسول نے ابتدائی تعلیم اپنے والد ماجد سے حاصل کی۔ اپنےوالد ماجد کے وصال کے بعد رامپور سے لکھنو تشریف لے آۓ اور کچھ عرسے بعد بریلی شریف میں اعلی حضرت امام احمد رضا خاں قدس سرہ العزیز کی خدمت میں حاضر ہوۓ اور کسبِ علوم ظاہری و باطنی کیا۔ اپنی حق گوئی و بے باکی اور دلبزیر انداز خطابت کی وجہ سے بارگاہ اعلیٰحضرت سے سیف اللہ المسئول شیر بیشئہ اہلسنت، مجاہد ملت اور سلطان الوعظین وغیرہ کے خطابات سے نوازے گئے۔

سلسلئہ بیعت: آپ سید شاہ ابوالحسین نوری میاں صاحب مارہروی رضی اللہ تعالی عنہ کے دست حق پر بیعت ہوۓ اور بارگاہ نوری سے اجازت و خلافت سے بھی نوازے گئے۔ بعد میں اعلٰحضرت عظیم البرکت رضی اللہ تعالی عنہ نے بھی خرقئہ خلافت عطا کیا۔ آپ کے مریدین کی تعداد خاصی تھی مگر عام طور سے آپ لوگوں کو زیادہ تر اعلٰحضرت یا سرکار مارہرہ شریف سے بیعت ہونے کی ترغیب دیتے تھے۔
اجمیر شریف، داؤد نگر نصیرآباد، لکھنو میں آپ کے مریدین کی تعداد زیادہ تھی آپ لکھنو کی سر زمین پر حضرت شاہ پیر محمد صاحب ساکن باغ انوار غالباً آپکی آخری نشانی تھے۔ اس کے علاوہ آپ کے خاص مریدین میں حضرت شیر بیشئہ اہلسنت حضرت علامہ حشمت علی خاں صاحب آپکی والدہ ماجدہ اور والد ماجد حضرت شاہ نبی بخش صاحب قابل ذکر ہیں۔
حضرت مولانا ہدایت رسول صاحب علیہ الرحمہ کا فیضان نظر ہی تھا کہ جو مولانا حشمت علی خان صاحب کو مدرسہ دیوبند سے نکال کر دارالعلوم مدرسہ منظر اسلام بریلی میں اعلی حضرت کی خدمت میں پیش کردیا۔

اعلی حضرت رضی اللہ تعالی عنہ سے محبت و قربت:- حضرت مولانا ہدایت رسول صاحب کو سرکار اعلی حضرت فاضل بریلوی سے بے پناہ تعلق خصوصی لگاؤ تھا۔ آپ کی محبت و عقیدت کا یہ عالم تھا کہ آپ کوئی قدم جو دین ملت کی بھلائی کے لئے ہوتا آپ انکے مشورے کے بغیر نہ اٹھاتے اعلحضرت بھی آپ سے بہت محبت فرماتے اور آپکا بے حد اکرام فرمایا کرتے تھے۔ استاد و شاگرد کے تعلق کے علاوہ اعلحضرت رضی اللہ تعالی عنہ آپ کو اپنا دست راست جانتے تھے۔
چنانچہ آپ کا یہ قول بہت مشہور ہے کہ اگر مجھ جیسا کوئی لکھنے والا اور ہدایت رسول جیسا بولنے والا ہندستان میں اور ہوتا تو بد مذھبیت کا نام و نشان تک نہ ملتا۔

سرکار غوث اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کے پنجے کا نشان:- حضرت مولانا ہدایت رسول صاحب کی پشت پر پنجے کا نشان تھا۔ جس کی نسبت اس وقت کے اکابرین و اولیاۓ کرام نے فرمایا کہ یہ عَالَمِ ارواح میں سیدنا جلالت مآب حضرت غوث الثقلین رضی اللہ تعالی عنہ نے آپ کی پشت پر اپنا دست مبارک رکھا تھا۔ اور یہ آپ کی کرامتِ خاص تھی۔ کہا جاتا ہے کے سرکار اعلحضرت رضی اللہ تعالی نے اپنے اس شعر میں اسی طرف اشارہ کیا ہے۔

کیا دبے جس پہ حمایت کا ہو پنجہ تیرا
شیر کو خطرے میں لاتا نہیں کُتّا تیرا

حق گوئی و بےباکی: حضرت مولانا ہدایت رسول صاحب کا حق گوئی اور بے باکی کا یہ عالم تھا کہ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے جس کے شاھد اُس دور کے خبارات اور رسائل کے صفحات ہیں کہ آپ کسی سے نہیں ڈرتے تھے۔ اور اعلاۓ کلمةالحق اور تبلیغ دین و مسلک کے سلسلے میں کبھی کسی کی رو رعایت نہیں کی نہ کسی سے دبے جبکہ اس وقت ظالم و جابر برطانوی حکومت تھی اور ان فرنگیوں کے سامنے آپ نے جراءت مندانہ تقریریں کیں۔ قید و بند بھی انھیں ذرا بھی خوف زدہ نہ کر سکا۔
مولانا ہدایت صاحب اپنے دور کے ایک بلند پایہ کے عالم باعمل تھے۔ انکے علمی بزرگی اور شرف کے لئے یہی بات کافی ہے کہ وہ امام احمد رضا رضی اللہ تعالی عنہ کے شاگردِ خاص اور انکی بارگاہ کے فیضیاب تھے۔ اور انکے دست راست کہلاۓ جاتے تھے۔
آپ تحریر اور تقریر دونوں میدانوں کے شہسوار تھے۔ بے مثل اور نڈر مقرر تھے آواز بھی بھاری رعب دار اور اللہ رب العزت نے انہیں ایک خاص کرامت عطا کی تھی وہ یہ کہ انکی آواز ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں کے مجمع میں ۔تمام سامعین کو یکساں پہنچتی تھی۔

فرنگیوں کے خلاف: فرنگیوں کو بھارت چھوڑ کر واپس جانے میں لگاتار ہرجوش تقریریں کرتے رہے۔ بتایا یہ جاتا ہے کہ انھیں فرنگیوں نے زہر دے کر قتل کیا سازشیں تو بہت ہوئی کئی تکلیفیں برداشت کیں اور آخر ایک روز اللہ کی بارگاہ جنت کے سفر کا بلاوہ آگیا اور یہ مرد مجاہد نے وہ کام ادا کیۓ جس کے لئے اللہ نے انھیں دنیا میں بھیجا تھا۔
اللہ رب العزت سے ہماری بھی یہی دعا ہے کہ میری بلکہ ہماری زندگی کو اسی مقصد میں لگادے جس کے لئے ہمیں پیدا کیا گیا۔ الٰہی ہمیں بھی اپنے پیاروں کا صدقہ عطا فرما آمین.!!!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے