نتیجۂ فکر: ازہرالقادری
جامعہ اہل سنت امدادالعلوم مٹہنا
کھنڈسری سدھارتھ نگر یوپی انڈیا۔
غنچۂ دلِ غم گیں ، پھول بن کے کھل جاتا
چاک یہ گریباں بھی اُن کےدرپہ سل جاتا
شعر پیر و مرشد کا پڑھتے مستقل جاتا
داغ فرقت طیبہ قلب مضمحل جاتا
کاش ! گنبد خضریٰ دیکھنے کو مل جاتا
===================
کچھ عنایتیں ہوتیں کاش! اِس دِوانے پر
حسرتیں لیے دل کی ، شاد ہوتا جانے پر
پھر بڑا مزہ آتا شعر یہ سنانے پر
دم مرا نکل جاتا اُن کے آستانے پر
اُن کے آستانے کی خاک میں میں مل جاتا
===================
کُلفتوں کا عالم ہے دل کے آبگینے میں
بے قرار ہے ہستی ، دُور رہ کے جینے میں
اٹھ رہی ہےرہ رہ کرہوک سی یہ سینے میں
موت لے کے آجاتی زندگی مدینے میں
موت سے گلےمل کر زندگی میں مل جاتا
===================
یاخدا ! زہے قسمت کام یہ اگرہوتا
اُنکے در کےمنگتوں میں،میں بھی معتبرہوتا
بالیقیں ، بہت اچھا ،کیا ہی خوب ترہوتا
خلد زار طیبہ کا اِس طرح سفر ہوتا
پیچھے پیچھے سر جاتا آگے آگے دل جاتا
===================
نور کی کلی ، غنچہ ، نوری یادگاروں میں
حُسن کی فضاؤں میں ، نورکی بہاروں میں
دھول اور مٹی میں ،گَرد میں غُباروں میں
دل مرا بچھا ہوتا ان کی رہ گزااروں میں
ان کےنقش پا سےیوں مل کے مستقل جاتا
===================
فرقت و جدائی کا غم بہ صد ادا کہتی
مصطفیٰ کی چوکھٹ پر کیا نہیں بھلا کہتی
کوچۂ مدینہ میں درد کو دوا کہتی
چشم تر وہاں بہتی دل کا مدعا کہتی
آہ با ادب رہتی ! مونھ میرا سل جاتا
====================
عشق دُور کرتا ہے دُور سے ہر اک دُوری
اِس طرح کہ:حائل ہو بیچ میں نہ مجبوری
تھی یہی وجہ ازہر ، مل گئی جو منظوری
اُن کے درپہ اختر کی حسرتیں ہوئیں پوری
سائلِ درِ اقدس کیسے منفعل جاتا
حسب خواہش: مولانا حیدر علی نظامی ثقافی
استاذ: جامعہ نظامیہ رضانگر،شنکرپور،کپل وستونیپال