تحریر: ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی ازہری
فاضل جامعہ ازہرشریف، مصر، شعبہ حدیث، ایم اے
خادم: مرکز تربیت افتا، أوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا
یہ بات ہر شخص پر روز روشن کی طرح واضح ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے علماے کرام کو ہی اپنا وارث و نائب بنایا، یہ وارثین ہی ہر دور میں اپنی خدا داد صلاحیت کے ذریعہ قوم و ملت کی شرعی و ملی رہنمائی فرماتے رہے اور ان شاء اللہ تا قیام قیامت رہنمائی فرماتے رہیں گے، انہیں وارثین میں سے ماضی قریب کی ایک شخصیت حضور فقیہ ملت علیہ الرحمہ کی ذات ہے، آپ کی پیدائش ۱۳۵۲ھ میں ضلع بستی کے ایک مشہور آبادی اوجھاگنج میں ہوئی، آپ نے علم دین حاصل کرنے کے بعد قوم و ملت بالخصوص طالبان علوم نبویہ کو سنوارنے کے لیے اپنی صلاحیت کو بروے کار لاتے ہوئے مختلف اور اہم دینی و ملی خدمات تدریس، اصلاحی بیان، فتوی نویسی، تصنیف اور مقالہ نگاری وغیرہ کی صورت میں پیش فرمائی، آپ کی رائے کے مطابق ان تمام چیزوں میں تصنیف و تالیف کا کام سب سے زیادہ سخت و مشکل ترین امر ہے، مگر آپ نے ان تمام چیزوں کے ساتھ مشکل ترین امر تصنیف و تالیف ہی کو اولیں درجہ دیا؛ اس کی وجہ آپ کا یہ ماننا تھا کہ عوام تک اپنی بات پہونچانے کے لیے یقینا اصلاحی بیان کی ضروت ہے مگر اس کا فائدہ انہیں لوگوں تک عموما محدود ہوتا ہے جو مجلس میں حاضر ہوتے ہیں، لیکن تصنیف و تالیف کا معاملہ کچھ الگ اور وسیع تر ہے، تالیف سے مصنف کے زمانہ والے فائدہ تو اٹھاتے ہی ہیں، ساتھ ہی مصنف کے اس دار فانی سے کوچ کرنے کے بعد بھی صدیوں تک لوگ اس سے فائدہ حاصل کرکے اپنے دل و دماغ کو جلا بخشتے رہتے ہیں، کتنی کتابیں ہیں جن کو تصنیف کیے صدیاں گزر گئیں مگر آج بھی پورا عالم اس سے فائدہ اٹھارہا ہے اور ان شاء اللہ ہمیشہ اٹھاتا رہے گا، آپ نے اپنی اسی اولیں ترجیح کے پیش نظر وقت و حالات کے اعتبار سے مختلف موضوعات پر بہت اہم اور گراں قدر تقریبا چوبیس پچیس کتابیں تصنیف فرمائیں، قارئین ان میں سے بعض پر مختصر تبصرہ ملاحظہ فرمائیں:
فتاوی فیض الرسول: آپ کی یہ دو ضخیم جلد والی کتاب آپ کے گراں قدر تحقیقی فتاوی پر مشتمل ہے، آپ نے یہ فتاوی مدرسہ فیض الرسول، براؤں شریف میں کم و بیش چالیس سال تدریس کے دروان، دن و رات محنت کرکے تحریر فرمایا، آپ کے یہ فتاوی ایمان سے لے کر میراث تک کے ہزاروں مسائل کا حل بالکل آسان و واضح تعبیرات کی روشنی میں پیش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، آپ نے اپنے ان فتاوی میں جا بجا مسلمانوں کے درمیان خلاف شرع رائج بدعت و خرافات کا رد بھی بحسن و خوبی فرمایا ہے، ان فتاوی کی کتاب کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہ ہندو پاک کے اکثر دار الافتا میں موجود ہے، جس سے علما و مفتیان کرام اپنے و دوسروں کے مسائل حل کرتے ہیں، انہیں فتاوی کی دوسری و تیسری کڑی ایک جلد میں فتاوی برکاتیہ اور دو ضخیم جلد میں فتاوی فقیہ ملت بھی ہے، انوار الحدیث: آپ نے اس کتاب میں قوم و ملت کے مسائل کا حل احادیث کی روشنی میں پیش فرمایا ہے، یہ کتاب ایمان سے لے کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وسعت علم تک کے مباحث کو محیط ہے،اس کتاب میں امت مسلمہ کے مسائل کا حل پیش کرنے کے ساتھ ساتھ بہت سارے لوگوں کے شکوک و شبہات کو بھی احادیث طیبہ کی روشنی میں دور کرنے کی بہترین کوشش کی گئی ہے، یہ کتاب اردو و ہندی اور انگریزی تینوں زبانوں میں کافی مقبول اور متداول عام و خاص ہے، خطبات محرم: عام طور سے دیکھا جاتا ہے کہ ہند و پاک کے مسلمان ماہ محرم الحرام کے پہلے دس دن میں بیان کا اہتمام کرتے ہیں، حضور فقیہ ملت علیہ الرحمہ ان دنوں ہونے والے بہت سارے بیانات سے متفق نہیں تھے؛ کیوں کہ وہ بیانات بہت سارے غلط واقعات و حکایات پر مشتمل ہوتے تھے، اسی مفسدہ کو دور کرنے کے لیے آپ نے مستند حوالوں کے ساتھ بارہ وعظوں پر مشتمل یہ کتاب تصنیف فرمائی؛ اسی وجہ سے یہ کتاب علما و عوام سب کے درمیان اپنا ایک خاص مقام رکھتی ہے اور آج بھی لوگ اس کتاب کی تعریف میں رطب اللسان ہیں، یہ کتاب بھی اردو و ہندی دونوں زبانوں میں موجود ہے، عجائب الفقہ یعنی فقہی پہیلیاں: آپ کی یہ کتاب ایسے ایسے فقہی سوالات و جوابات پر مشتمل ہے کہ ایک عام آدمی تو عام آدمی خاص علما بھی سوال پڑھ کر حیرت میں پڑجاتے ہیں اور جب جواب پڑھتے ہیں؛ تو سوال کا حل پاکر لبوں پر مسکراہٹ پھیل جاتی ہے، حضرت کی یہ کتاب بھی بہت مقبول و مشہور ہوئی، بزرگوں کے عقیدے: آیت کریمہ سے یہ بات ثابت شدہ ہے کہ انبیا، صدیقین، شہدا اور صالحین کا طریقہ ہی سیدھا راستہ ہے، مگر اس کے باجود بعض لوگ ان کا طریقہ کار اختیار کرنے والوں پر چیں بجبیں تھے؛ تو حضور فقیہ ملت رحمہ اللہ نے اس طرح کے لوگوں کو سمجھانے کے لیے بزرگوں کے عقیدے کتاب تصنیف فرمائی اور دلائل سے ثابت فرمایا کہ بزرگان دین کا طریقہ کار ہی صحیح و درست اور وہی قرآن و حدیث کے موافق ہے؛ لہذا ان حضرات کے طریقہ کار کے مطابق چلنے والوں پر چیں بجبیں ہونے کی چنداں گنجائش نہیں، یہ کتاب ہند و پاک میں زیور طبع سے آراستہ ہوکر مقبول عام و خاص ہوئی، علم اور علما: اس کتاب میں علم و علما کی فضیلت بیان کی گئی ہے اور ساتھ میں اس بات کی وضاحت کرکے علما کو مہمیز بھی لگانے کی کوشش کی گئی ہے کہ علما اگر عمل نہیں کریں گے؛ تو جہاں ان کی بات کے بے اثر ہونے کا اندیشہ ہے، وہیں یہ طریقہ کار ان کی آخرت کو خراب کرنے والا ہے؛ لہذا ایک عالم پر لازم و ضروری ہے کہ وہ اپنے علم کے مطابق عمل کرے؛ تاکہ قول و عمل ثمربار ہو اور اس کی آخرت بھی خراب ہونے کے بجائے سنور جائے، آپ نے ان ساری باتوں کو قرآن و حدیث کی روشنی میں عمدہ پیراے پر بیان کیا ہے، یہ کتاب بھی ہند و پاک میں طبع ہوئی اور علما و طلبہ کے درمیان کافی مقبو
ل
ہوئی، حج و زیارت: حضرت نے ۱۳۹۶ھ مطابق ۱۹۷۶ء میں حرمین طیبین کی زیارت سے مشرف ہونے کے بعد تجربہ کی روشنی میں قرآن و حدیث اور اقوال علما سے اخذ کرتے ہوئے یہ کتاب تحریر فرمائی، یہ کتاب اگرچہ حجم میں چھوٹی ہے مگر بہت عمدہ و بہترین کتاب ہے، اس کے عمدہ ہونے کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ عوام تو عوام بہت سارے علما بھی حج کے درمیان یہ کتاب اپنے ساتھ رکھتے ہیں اور جب حج کے درمیان انہیں کسی مسئلہ میں تردد ہوتا ہے؛ تو وہ اس کتاب کے ذریعہ اپنا تردد دور کرلیتے ہیں، یہ کتاب بھی ہند و پاک سے شائع ہوکر مقبول عام و خاص ہوچکی ہے، یہ کتاب ہندی زبان میں بھی طبع سے آراستہ ہوئی، ضروری مسائل: حضرت نے ہمیشہ زمانہ کے لحاظ سے پیش آنے والے مسائل کا حل پیش کرکے مسلمانوں کو راحت پہونچانے کی کوشش فرمائی، اسی کی ایک کڑی آٹھ مدلل فتاوی کا شاندار مجموعہ بنام: ضروری مسائل بھی ہے، آپ نے اس رسالہ میں انجکشن سے روزہ ٹوٹنے، نماز میں لاؤڈسپیکر کے استعمال کرنے اور قبر وغیرہ کو سجدہ کرنے سے متعلق قرآن و حدیث اور اقوال علما کی روشنی میں بہترین گفتگو فرمائی ہے، یہ کتاب بھی عوام و خواص سب کے لیے مفید ہے، تعظیم نبی: ہر سچا و پکا مسلم جانتا ہے کہ تعظیم نبی صرف ایمان ہی نہیں بلکہ ایمان کی جان ہے، آپ نے امت مسلمہ کو اس عظیم امر کی طرف اس کتاب کے ذریعہ توجہ دلائی؛ تاکہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تعظیم ہر مسلم کے دل میں گھر کرجائے اور وہ آپ کی تعظیم کا ہر لمحہ پاس و لحاظ رکھے اور کسی طرح بھی اس جانب تساہلی نہ برتے، یہ کتاب بھی اپنے موضوع پر اپنی مثال آپ ہے، ہر عام و خاص آدمی اس سے فائدہ حاصل کرسکتا ہے، معارف القرآن: حضرت کی یہ کتاب تصنیف و تالیف کے ابتدائی دور کی ہے، آپ نے اس کتاب میں تفسیر کی معتبر کتابوں کے ذریعہ بعض مخصوص آیات کی تفسیر پیش کی ہے، اور حمد الہی و اقرار بندگی، عظمت حکم مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور شان مؤمن وغیرہ جیسے اہم و اصلاحی موضوعات پر آسان لب و لہجہ میں بہترین گفتگو کی ہے، یہ کتاب بھی عوام و خواص سب کے لیے مفید و کار آمد ہے، آٹھ مسئلے کا محققانہ فیصلہ: حضرت نے اس رسالہ میں مختلف آٹھ مسائل جیسے بدعت کی قسمیں، بدعت کا رواج اور صلاۃ و سلام وغیرہ پر محققانہ و سیر حاصل گفتگو فرمائی ہے، آپ کا یہ رسالہ آپ کی تحقیق و تدقیق کا بہترین شاہکار ہے، اس رسالہ نے بھی اردو داں طبقہ کے درمیان کافی مقبولیت حاصل کی، یہ رسالہ بھی ہند و پاک میں شائع ہوکر خوب داد و تحسین حاصل کرچکا ہے، انو ار شریعت: آپ نے یہ کتاب سوال و جواب کے طرز پر ایمان، نماز، روزہ اور زینت وغیرہ کے متعلق تحریر فرمائی ہے، یہ کتاب ایسی ہے کہ اگر ایک بچہ صحیح ڈھنگ سے اس کو پڑھ لے؛ تو اسے ایمان، نماز وغیرہ کے موٹے موٹے مسائل ازبر ہوجائیں گے اور وہ اپنی روز مرہ کی عبادات وغیرہ صحیح طریقہ سے ادا کرنے کے لائق ہوجائے گا، یہ کتاب اپنے مشتملات اور عمدہ و سادہ اسلوب کی بنیاد پر کافی مقبول ہوئی، اس کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ یہ کتاب اکثر مدارس اسلامیہ کی پانچویں کلاس یا جماعت اعدادیہ میں داخل نصاب ہے، یہ کتاب بھی اردو، ہندی اور انگریزی میں موجود و متداول ہے، نورانی تعلیم: یہ کتاب ابتدائی سے لے کر پانچ تک کے طلبہ کے لیے قائدہ اور پانچ حصوں میں تصنیف کی گئی ہے، یہ کتاب بھی بالکل آسان و سادہ اسلوب میں ہے، اس کتاب کے ذریعہ بھی ایک بچہ اپنے روز مرہ کے بہت سارے دینی و ملی مسائل سے بخوبی واقف ہوجاتا ہے، کچھ قاعدہ کی کتاب الف سے انگوٹھی اور با سے بوتل سے شروع ہوتی تھی، آپ نے اسے ناپسند فرمایا اور اپنی نورانی تعلیم قاعدہ کو الف سے اللہ اور با سے بسم اللہ سے شروع فرمایا، یہ کتاب بھی بچوں کے لیے از حد مفید ہونے کی وجہ سے بہت ہی مقبول ہوئی اور اسی وجہ سے ہند و پاک کے بہت سارے مدارس اسلامیہ کے ذمہ داران نے اپنے مدارس میں اسے ابتدائی سے پانچ تک کے بچوں کے لیے داخل نصاب فرمایا ہے، یہ وہ کتاب ہے جس سے ایک مسلم بچہ اردو زبان سیکھنے کے ساتھ اپنے دینی مسائل بھی سیکھتا ہے، ان کتابوں کے علاوہ بھی حضرت کی دوسری کتابیں جیسے سید الاولیا سید احمد کبیر رفاعی قدس سرہ، گلدستہ مثنوی اور باغ فدک اور حدیث قرطاس وغیرہ بھی مقبول عام و خاص ہوئیں، ان تصانیف سے لوگوں نے فائدہ اٹھایا اور ان شاء اللہ صدیوں تک لوگ آپ کے اس کار خیر سے فائدہ اٹھاتے رہیں گے، آپ کی وفات ۳؍جمادی الاخری ۱۴۲۲ھ میں ہوئی، آپ کی پوری زندگی شریعت اسلامیہ کی پابندی اور خلوص کے ساتھ عظیم دینی خدمات پیش کرنے سے عبارت ہے، اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ حضرت کی ان خدمات عالیہ کے بدلے میں، حضرت کے درجات بلند سے بلند تر فرمائے اور ہم سب کو آپ کے نقش قدم پر چل کر تحریر و تقریر وغیرہ کے ذریعہ مفید و بیش بہا خدمات انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔