علما و مشائخ

حضور شیر نیپال علیہ الرحمہ ایک عہد ساز شخصیت

ازقلم: غلام رسول اسماعیلی
استاذ مرکزی ادارہ شرعیہ پٹنہ
M:9572161137

تاریخ ساز شخصیت میں ایک اہم اور نمایاں نام مفتی اعظم نیپال،خلیفۂ حضور سید العلما واحسن العلما،معتمد تاج الشریعہ،مرسل حافظ ملت، شیرنیپال سابق قاضی القضاۃ فی النیبال حضرت علامہ ومولانا حافظ وقاری الحاج الشاہ مفتی جیش محمد قادری برکاتی علیہ الرحمہ کی ذات ہے،حضور شیر نیپال ہندونیپال سمیت اکناف عالم میں کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں آپ علم و تقویٰ کے پیکر، ظاہری و باطنی فیوض و برکات کے درخشاں، درس و تدریس کے ماہر، صبر وقناعت کے بحر بے کراں، مسلک اعلیٰ حضرت کے پاسباں، وعظ وخطابت کے شہنشاہ، اخلاقی اوصاف سے پر اور مرجع خاص و عام تھے آپ کی زندگی کا اکثر حصہ تعلیم وتدریس ، وعظ وخطابت،مناظرہ ومجاہدہ، رشد وہدایت ودیگر دینی خدمات میں صرف ہوا ۔

ولادت باسعادت:
حضور شیر نیپال علیہ الرحمہ کی ولادت باسعادت ٢٨/ صفرالمظفر ١٣٦٢ھ،مطابق ٥/مارچ ١٩٤٣ءکولوہنہ شریف ببھنگاواں،ضلع دھنوشا(نیپال)میں ہوئی ۔
اسم گرامی :
آپ کا نام جیش محمد بن الحاج شیخ محمد جاشم علی بن الحاج شیخ محمد اصغر علی بن شیخ محمد اکبر علی بن شیخ محمد دلاور حسین ہے اور شیرنیپال کے لقب سے اطراف عالم میں معروف ہیں۔
تعلیم وتر بیت اور فراغت:
ابتدائی تعلیم گاوں کے مکتب میں حاصل کی بنیادی اور متداول کتابیں پڑھنے کے بعد مدرسہ مصباح المسلمین علی پٹی،ضلع مہوتری(نیپال)گئے اس ادارہ کے اعتقادی حال جاننے کے بعد ،دارالعلوم علیمیہ دامودر پور،ضلع مظفر پور(بہار)
پھرمدرسہ اشرف العلوم کنھواں،ضلع سیتا مڑھی(بہار)اوراعلی تعلیم کیلئے جامعہ رضویہ منظر اسلام(بریلی شریف)اس کے بعد الجامعۃ الاشرفیہ مبارکپور یوپی تشریف لے گئے اوروہاں جلالۃ العلم،حضور حافظ ملت،علامہ شاہ عبدالعزیز محدث مراد آبادی ،نائب حافظ ملت،حضرت علامہ حافظ عبدالرؤف بلیاوی ،بحرالعلوم،حضرت علامہ مفتی عبدالمنان اعظمی علیھم الرحمہ والرضوان جیسی نباض اور مایہ ناز شخصیات سے علم و عرفان کاجام و سبو نوش کر کے علمی تشنگی بجھائی۔آپ کے اساتذۂ کرام میں اشرف العلما،حضرت مولانا سید حامد اشرف جیلانی کچھوچھوی علیہ الرحمہ، حضرت مفتی محمد جہانگیرفتح پوری علیہ الرحمہ،حضرت مولانا محمد کاظم علی بستوی علیہ الرحمہ،، حضرت مولانا قاری محمد ظہیرالدین اعظمی، حضرت مولانا محمد شفیق احمد،حضرت مولانا جمشید علی علیہ الرحمہ خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں۔
۱۰؍ شعبان المعظم ۱۳۸۷؁ ھ مطابق ۲۴؍نومبر ۱۹۶۶؁ء میںالجامعہ الاشرفیہ مبارکپور کے پہلے پہل جلسہ دستار بندی میں حضور شیر نیپال علیہ الرحمہ کو دستار علم وفضل سے نوازا گیا ۔
حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ نے احساس کیاکہ شیر نیپال دین کی خدمت و توسیع اور مسلک اہل سنت مسلک اعلیٰ حضرت کی ترو یج و ا شاعت کا درد رکھنے والا مرد قلندر ہے جو کفرستان میں اسلام کا چراغ روشن کریگااوربے راہ روی کے شکار لوگوں کو نور ہدایت عطا کریگا۔بوقت دستاربندی حضورحافظ ملت نے فرمایا ’’آپ مقدمۃ الجیش ہیں پہلے آپ آئیں‘‘ ۔ ا و ر بوقت رخصت یہ فرمایاکہ ’’میں آپ کو تنہا لشکر اسلام بناکر بھیج رہاہوں‘‘۔جس نتیجہ یہ برآمد ہواکہ جب ۱۳۹۴؁ھ کے سہ روزہ ’’سرکار مدینہ کا نفر نس‘‘ میں حضو ر شیرنیپال کی دعوت پر صدر کانفرنس کی حیثیت سے حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ تشریف فرماہوئے توشیر نیپال کی عظیم خدمات کو ملاحظہ فرماکر حضرت مفتی عبدالواجد علیہ الرحمہ سے مخاطب ہوکر فرمایا:’’مولانا جیش محمد صدیقی ایک قابل عالم دین ہیں ان سے بہت سی امیدیں وابستہ ہیں مجھے امید ہے کہ اس علاقہ میں ان کے ذریعہ سنیت کی تبلغ واشاعت ہوگی‘‘۔
حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ کو شیر نیپال پر اتنا اعتماد و وثوق تھا کہ جب ایک بار مدھوبنی سے کچھ لوگ وہابیوں کی سرکشی و تمرد کی سرتابی کے لئے اور بد عقیدوں کو دنداں شکن جواب دینے کے لئے ایک مناظر مانگنے کے لئے مبارکپور آپ کی خدمت میں پہنچے تو آپ نے فرمایا ـ’’نیپال میں تنہا مفتی جیش محمد صدیقی ایسا مناظر ہیں جو اس کام کے لئے زیادہ موزوں ہیں ،آپ ان کے پاس جائے اور میرا حوالہ دیجئے وہ اس کام کو انجام دینے کے لئے جائیں گے اور وہابیوں سے مقابلہ کرکے انہیں شکست دیں گے‘‘۔
ایک مرتبہ امین شریعت رابع ادارہ شرعیہ مفتی عبدالمنان کلیمی صاحب جب ادار ہ میں تشریف لائے تو راقم الحروف سے کہاکہ آپ کا گھرکہاں ہے ؟تو عرض کیا کہ گھوڑبنکی باسوپٹی تو انہوں نے بے ساختہ کہاکہ آپ کے علاقہ شیر نیپال علیہ الرحمہ کی کافی خدمات ہیں۔ ۱۹۷۳؁ ء میں باسوپٹی مدھوبنی ضلع میں میلاد کے موضوع پر سنی اورغیر مقلدین کے مابین مناظرہ ہونا طے پایا، جس میں ہندو ستان ونیپال کے جید علمائے اہل سنت شریک تھے۔ اس مناظرہ میں اہل سنت کی طرف سے علماء ومشائخِ اہل سنت نے شیر نیپال کو اور حضور شارح بخاری مفتی محمد شریف الحق علیہ الرحمہ کو مناظرمنتخب فرمایاان دنوںشیر نیپال علیہ الرحمہ الجامعۃ الاشرفیہ میں زیر تعلیم تھے تقریبا دس دن قبل باسوپٹی پہونچ کر کتابوں کی فراہمی کااور دیگر لوازمات کو سنبھالا ،بوقت مناطرہ شیر نیپال علمائے دیوبند کو للکارتے رہے ،انہیں عار دلاتے رہے اور پوری رات سامنا کرنے کی دعوت دیتے رہے اور دلائل وبراہین کی روشنی میں جشن میلاد نبوی کے انعقاد کو ثابت کرتے رہے مگر بزدل علمائے دیوبند اپنے اند ر تاب مقابلہ پیدانہ کر سکے اور رات ہی رات فرار ہوگئے،اس طرح اہل سنت کو کامیابی ملی اور اہل باطل کو شکست وہزیمت اور تمام حاضرین عوام پر اہل سنت کی حقانیت واضح ہوگئی اور بہت سے ایسے لوگ سنی ہوگئے جو وہابیوں اور بد مذہبوں کے دا م فریب میں آگئے تھے۔اس مناظرہ میں اہل سنت کی طرف سے حضور شارح بخاری ،حضور بحرالعلوم ، امین شریعت سلطان المناظرین مفتی رفاقت حسین کانپوری،شیربہار حضرت علامہ مفتی محمد اسلم رضوی مقصود پوروغیرہم جیسے اجلہ سرخیل علما ء شریک تھے ۔اسی موقع پر ہند و نیپال کے بڑے بڑے اکابر علماء و مشائخ اور فقہا ء عظام نے آپ کو شیر نیپال کا خطاب دیا ،جن میں سرفہرست حضور نظمی میاں ،علامہ سید عارف صاحب ، علامہ ارشد القادری ،شیر بہار ،شمس الاولیا وغیرہم ہیں یہ خطاب اتنا مقبول ہوا کہ آج حضور شیر نیپال نام سے کم اور اس خطاب سے زیادہ عوام وخواص میں متعارف ہیں۔
سفر حج وزیارت:
شیر نیپال علیہ الرحمہ نے پہلا حج ۱۴۱۳ھ ۱۹۴۳ءمیں کیا تھا۔اس کے علاوہ کم وبیش چھ بار عمرہ شریف کا شرف حاصل ہوا اور ایک بار بغداد شریف کی بھی حاضری۔
تدریسی خدمات:
آپ تمام تر اوصاف کاملہ پر دسترس رکھنے کے ساتھ ساتھ بہترین اور قابل مدرس بھی تھے جامعہ اشرفیہ سے فراغت کے بعد سب سے پہلے آپ نے تدریسی خدمات کا آغاز اپنے مادر علمی مدرسہ علیمیہ دامودر پور مظفر پورسے کیا۔ایک سال تک یہاں تدریسی خدمات انجام دی۔جب تعطیل کلاں میں اپنے گاؤں لہنہ پہنچے تو جنکپور والوں نے وفد کی شکل میں آکر جنکپور رہنے کے لئے اصرار کیا تو انکی درخواست کو منظور کرتے ہوئے ۲۳/ شعبان المعظم ۱۳۸۷ھ بروز پنجشنبہ بوقت مغرب آپ جنکپور پہنچ گئے۔اس وقت جنکپور میں کوئی دارالعلوم نہیں تھابس ایک مکتب تھا ۔ اس شہر میں ایک مرکزی مدرسہ قائم کرنے کا ارادہ زمانہ طالب علمی ہی سے تھا اس لئے حامی بھرلی ا و ر تن و جان اور پورے خلوص و للہیت کے ساتھ دینی و قومی اور تعلیمی خدمات میں مصروف ہوگئے۔ آپ نے رات و دن جد و جہد کرکے مکتب کے بغل میں ہی دارالعلوم قائم کیا جو ہندو نیپال میں جامعہ حنفیہ غوثیہ سے مشہور و معروف ہے ۔۱۳۹۴؁ ھ ، مطابق ۱۹۷۴؁ ء،میں جب کاٹھمانڈوشاہی کشمیر ی مسجد کے منتظمین کے اصرار پیہم پر امام مقرر ہوئے اور چند ماہ تک یہاں امامت کے فرائض بحسن و خوبی انجام دیتے رہے۔پھر ذوقعدہ ۱۳۹۵؁ ھ،مطابق نومبر ۱۹۷۵؁ء،کارتک میں کاٹھمانڈو شاہی کشمیری مسجد کی امامت سے بخوشی بر طرف ہو کر جنکپور میں آپ کا ورود ثانی ہواپھرتاحیات بحیثیت شیخ الحدیث تدرسی خدمات انجام دیکر علمائے کرام کا ایک جہاں آباد کردیا ہے جو اکناف عالم میں دین وملت کی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ہیں۔یہ حضور شیرنیپال کے کارنامے ا ور خدمات کا ایک عظیم رخ ہے۔جہاںمسجد کی پہلی چھت ڈھالنے پر پابندی تھی،جہاں اذان تودرکنار مائک سے تقریر کرنے پر بھی پابندی تھی آج وہاں آپ کی مجاہدانہ جدوجہد کے سبب تین منزلہ مسجد لوگوں کو دعوت نظارہ دے رہی ہے جس میں پانچوں وقت کی اذان مائک سے ہورہی ہے ۔
مدارس کا قیام :
آپ نے جابجا قوم وملت کی فلاح وبہبود اور ترویج مسلک اعلی حضرت کیلئے بے شمار مدارس کا قیام فرمایا جن میں سر فہرست الجامعۃ البرکات،نرائن گھاٹ(نیپال)،مدرسہ تنظیم المسلمین،لوکہا،مدھوبنی(بہار)،مدرسہ حنفیہ اشرفیہ،لہان (نیپال)،مدرسہ برکات العلوم،جےنگر،مدھوبنی(بہار)،مدرسہ برکاتیہ،جیش ملت،بہرہ،مدھوبنی(بہار)مذکور ہیں ۔
بیعت وخلافت:
شیر نیپال علیہ الرحمہ جب علوم ظاہرہ سے بہرہ مند ہوئےتو آپ کو ایک شیخ طریقت کی ضرورت پیش آئی آپ کو حضور اعلی حضرت رضی اللہ عنہ کے پیر خانہ مارہرہ مطرہ سے ۳۹۰؁۱ھ، مطابق ۱۹۷۰؁ء میںحضور سیدالعلما،سید آل مصطفیٰ برکاتی مارہروی علیہ الرحمہ کی بیعت کا شرف حاصل ہےاور سیدالعلما،حضرت سید شاہ آل مصطفیٰ برکاتی علیہ الرحمہ کے علاوہ احسن العلما،حضرت سید شاہ مصطفیٰ حیدر حسن علیہ الرحمہ،حضرت مولانا سید آل رسول حسنین میاں نظمی علیہ الرحمہ، شہزادۂ قطب مدینہ،حضرت مولانا ڈاکٹر فضل الرحمن الانصاری(مدینہ شریف)،تاج الشریعہ،علامہ شاہ اختر رضا قادری ازہری علیہ الرحمہ(بریلی شریف)، حضرت مولانا الحاج مفتی سید عارف میاں صاحب قبلہ سابق،شیخ الحدیث منظر اسلام(بریلی شریف)
سے جملہ سلاسل کی اجازت وخلافت حاصل ہے۔
مقبولیت:
اللہ رب العزت نے شیر نیپال کو جو قبولیت عطا کی جسکی عکاسی زمانہ کررہاہے یہی وجہ ہے کہ آپ اکابر علما و مشائخ کے نزدیک معتبر و مستند تھے اور قدر و احترام کی نگاہوں سے جاتے تھے۔ آپ کی مقبولیت کا عالم یہ تھا کہ جس راستے سے آپ کا گذر ہوجائے ،جس علاقہ میں آپ تشریف لے جاتے وہاں عقیدت مندوں کا ہجوم ہوجاتا ، لو گ جو ق در جوق آپ کی زیارت کرنے کے لئے پہنچ جاتے۔
حضور شیرنیپال علیہ الرحمہ کی اہل علم اور ارباب دانش کے مابین مقبولیت ہی کہئے کہ جب آپ کا وصال ہوا تو عوام کو بھی رنج و غم ہوا اور ہل علم و دانش بھی آپ کے وصال پر بیح رنجیدہ و غمگین ہوئے ، ہر ایک کو آپ کی رحلت پر بیحدقلق و افسوس ہوا اور سبھوں نے آپ کی رحلت کو ملت اسلامیہ کے لئے عظیم نقصان اور ناقابل تلافی خسارہ محسوس کیا ۔ یہی وجہ کہ ملک و بیرون ملک کے جامعات و خانقاہوںسے تعزیت نامہ موصول ہوئے جن میں جہاں آپ کے انتقال پرملال پر افسوس کا اظہار ہے وہیں آپ کی بارگاہ میں خراج عقیدت بھی اور آپ کی شخصیت و عظیم المرتبت ہستی کا اعتراف بھی، جو آج بھی ان تعزیت ناموں میں دیکھا جا سکتا ہے اور پڑھا جاسکتا ہے۔
حضور شیرنیپال علیہ الرحمہ سے آپ کے پیرو مرشد ،آپ کے اساتذہ اور وقت کے بڑے بڑے اہل علم و دانش بیحد محبت فرمایا کرتے تھے اور آپ کی موجودگی کو اہل اسلام کے لئے ایک عظیم نعمت تصور فرماتے تھے۔قائد اہل سنت علامہ ارشد القادری،حضور بحرالعلوم علامہ مفتی عبد المنان اعظمی،مفکر اسلام علامفہ مفتی عبد المبین نعمانی چریا کوٹ،خیر الاذکیا علامہ محمد احمد مصباحی جامعہ اشرفیہ مبارکپور،سید ملت حضور نظمی میاں ،مارہرہ شریف ،امین ملت حضور امین میاں مارہرہ شریف ،محدث جلیل علامہ سید عارف میاں بریلی شریف،تاج الشریعہ علامہ اختر رضا خان بریلی شریف،شیر بہار علامہ مفتی محمد اسلم رضوی مظفر پور ،شمس الاولیاحضرت علامہ مفتی محمد شمس الحق باڑا لہوریابہار،مفتی اعظم مہاراشٹر علامہ مفتی محمد اشرف رضا قادری،قائد ملت حضرت حافظ سعید حسین نوری بمبئی،صدر العلما علامہ تحسین رضا بریلی شریف،نبیرہ اعلیٰ حضرت حضرت منانی میاں و سمنانی میاں بریلی شریف ،جمال ملت حضرت علامہ جمال میاں بریلی شریف ، پیرومرشدحضرت سید شاہ گلزار اسمعیل واسطی قادری رزاقی مسولی شریف،مفتی اعظم کیرالا حضرت شیخ ابو بکر ملیباری کیرالا،محدث کبیر حضرت علامہ ضیاء المصطفی قادری گھوسی،اشرف العلما حضرت علامہ مفتی محمد اشرف القادری نینہی شریف ، مفتی اعظم ہالینڈ علامہ مفتی عبد الواجد قادری دربھنگہ وغیرہم علما ء و مشائخ کرام آپ سے بیحد محبت فرماتے تھے اور آپ کی علمی خدمات و شخصیت سے کافی متاثر و مسرور تھے۔تاج الشریعہ علیہ الرحمہ نے یہاں تک فرمایا کہ دینا میں جو جیش ملت کے جھنڈے تلے رہے گا وہ حشر میں بھی ان کے جھنڈے تلے ہوگا۔
تصنیفات :
شیرنیپال علیہ الرحمہ نے خدمت دین متین اور مسلک اعلیٰ حضرت کی ترویج و اشاعت کو اپنی زندگی کا نصب العین بنا یا۔ آپ کو اردو، فارسی اور عربی تینوں زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ اور لکھنے کا انداز بھی غضب کا تھا ۔ فتاویٰ برکات کو قرآن و احادیث ، فقہی جزئیات اور اقوال صالحہ سے ایسا مزین فرمایا ہے کہ دیکھنے سے امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔ رد وہابیہ میں اپنی مثال آپ تھے۔ آپ کی طرز نگارش پر زمانہ قربان ہے۔ متعدد کتابیں آپ نے تصنیف کی ہیں جن میں فتاوی برکات اول ودوم،سوم،چہارم،پنجم،ششم (مطبوعہ)،فتاوی برکات ہفتم،ہشتم (غیرمطبوعہ)، شان مصطفیٰ صفحات٤٨۔١٤١١ھ (مطبوعہ)، احسن الکلام فی رد القراءۃ خلف الامام ١٤٠٩ھ ٢٤صفحات (مطبوعہ)، بیس رکعت تراویح دلائل کی روشنی میں ١٤٢٠ھ صفحات ٦٤ (غیر مطبوعہ)،کعبہ یا مزار آدم علیہ السلام ١٤١٤ھ صفحات ٢٣(مطبوعہ)، طلاق کے دو اہم باب ١٤٠٧ھ صفحات ٢٣(غیرمطبوعہ)،اذان خطبہ اور اقامت کے مسائل ١٤٠٧ھ صفحات ٤٠(مطبوعہ)، بدمذہبوں کے پیچھے نماز کا حکم ١٤١٠ھ صفحات ٤٨ (مطبوعہ)،ہدایت کا راستہ ١٤٠٨ھ صفحات ٥٤ (مطبوعہ)،داڑھی کی شرعی حد وحیثیت ١٤١١ھ صفحات ٤٨ (غیرمطبوعہ)، تباہی ان گناہوں کی ١٤٠٧ھ صفحات ٣٢ (غیرمطبوعہ)،توہین رسول سنگین جرم صفحات ٢٣، ٢٠١٤ء(مطبوعہ)،القدس فی التاریخ عربی مطبوعہ، الخضارۃ الاسلامیہ عربی مطبوعہ، السلام فی الاسلام عربی مطبوعہ،حفظ الدین فی الطاعۃ النبویۃ عربی مطبوعہ، تذکرۃ الجیش عربی ٢٠٠٩ء صفحات ١٦ مطبوعہ، تحفہ برکات صفحات ٦٤، ٢٠١٠ء مطبوعہ،دیہات میں جمعہ کا حکم ١٤١٣ء صفحات ٤٠ مطبوعہ،برکات چہل حدیث ١٤٣٨ھ صفحات ٤٦ غیر مطبوعہ، بد مذہب اور اس سے رشتہ کا حکم،پیغام برکات ١٤٣٩ھ،فاسق کی اقتدا کا حکم ربیع الاول ١٤١٤ھ آپ کے عظیم ترین قلمی شاہکار ہیں ۔
میدان مناظرہ کے بھی آپ شہسوار تھے اور کئی مناظرہ بھی کر چکے ہیںجسکی روداد بھی موجود ہے۔آپ نے تحریر و تقریر کے ذریعہ ملک نیپال اور ہندوستان کے مختلف مقامات پر قابل قدر و فخر خدمات انجام دی ہیں،علما کا جو قافلہ تیار کرکے ملک کے اطراف میں ترائی سے لے کر پہاڑ کی وایوں اور گھاٹیوں تک پھیلا کر دین کی اشاعت اور مسلمانوں کے ایمان و عقیدے کی حفاظت کا جو فریضہ انجام دیا ہے اسے رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا اور انصاف پسند اور حقیقت بیں آپ کی بارگاہ میں خراج عقیدت پیش کرتے رہیں گے۔
وفات حسرت آیات :
حرمین شریفین کی زیارت سے واپسی پر ناسک میں آپ کی طبیعت سخت علیل ہو گئی ، ممبئی کے لیلا وتی ہاسپیٹل میں آپ کو ایڈمٹ کیا گیا مگر کئی روز تک مسلسل علاج کے باوجود کچھ افاقہ نہیں ہوا تو ڈاکٹروں کے مشورہ سے آپ کو آپ کے وطن ملک نیپال بذریعہ ایمبولینس لایا جانے لگا، ابھی راستے ہی میں تھے کہ لکھنو کے آس پاس رات ساڑھے گیارہ بجے حالت مسافرت ہی میں٢٨/ ربیع النور ۱۴۴۱ھ-مطابق ٢٦/ نومبر ٢٠١٩ء رات ساڑھے گیارہ بجےوصال پر ملال ہو گیا۔۲۷؍ نومبر۲۰۲۹ بروز بدھ بعد ظہر خانقاہ برکات لہنہ شریف میںجنازہ کی نماز ادا کی گئی ، جنازہ آپ کے بڑے صاحبزادے اور خلیفہ و جانشین حضرت مولانا محمد ضیاء المصطفیٰ از بری برکاتی صاحب قبلہ نے پڑھائی اور آپ کی قائم کردہ خانقاہ برکات کے احاطہ میں جانب مشرق میں آپ کے جسد مبارک کو دفن کیا گیا۔ مقامی میڈیارپورٹ کے مطابق سات لاکھ عقیدت مندوں نے آپ کی نماز جنازہ میں شرکت کی تھی ، جدھر دیکھیں انسان ہی انسان نظر آرہا تھا، بتایا جاتا ہے کہ نیپال کی تاریخ میں اتنا مجمع کسی جنازہ میں دیکھا نہیں گیا۔
ہرسال آپ کے معتقدین کا ایک سیلاب شریک عرس ہوکر اپنی عقیدت مندی کا اظہار کرتے ہیں اور مرادوں کے پھول چنتے ہیں اللہ رب العزت ہم تمام کو شیر نیپال علیہ الرحمہ کے فیضان سے مالا مال عطا فرمائے آمین ۔

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

آسان ہندی زبان میں اسلامی، اصلاحی، ادبی، فکری اور حالات حاضرہ پر بہترین مضامین سے مزین سہ ماہی میگزین نور حق گھر بیٹھے منگوا کر پڑھیں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے