تحریر: طارق انور مصباحی، کیرالہ
عظیم القاب سے متعلق میرے گزشتہ مضمون بعنوان:”درباری شاعر اور نقیب اجلاس کی کذب بیانی”میں کچھ اجمال ہے۔اس سبب سے کسی قاری کا ذہن کسی مفہوم غیر محمود کی طرف منتقل ہونا بعید نہیں۔
ممکن ہے کہ بہت سے قارئین کی نظر میں وہ بات نہ آئی ہو,جس جانب میں نے اشارہ کیا ہے۔
عہد ماضی کے فتاوی میں مفتیان کرام اخیر میں اپنا نام اس طرح رقم فرماتے:
کتبہ: بندۂ عاصی ——-غفر لہ
رقمہ:عبدہ المذنب——عفی عنہ
عہد حاضر میں اسی قسم کی طرز تحریر مروج ہے,لیکن بعض تحریروں کے اخیر میں مفتی یا قلم کار کا اسم شریف اس طرح درج ہوتا ہے:
کتبہ:امام الفقہا——-عفی عنہ
رقمہ:رئیس العلما——–غفر لہ
ایسی تحریریں خود وہ مفتی یا قلم کار شیئر کرتے ہیں۔اگر یہ کہا جائے کہ ان کے شاگردوں نے ایسا لکھ دیا ہے تو سوال یہ ہے کہ مکمل تحریر آپ نے رقم فرمائی تو عظیم القاب آپ کے شاگرد نے کیسے لکھ دیا؟
اسلاف کرام کے بے شمار فتاوی چھپے ہوئے ہیں۔ہر فتوی کے اخیر میں ان کے اسمائے گرامی اسی طرح مرقوم ہیں,جیسا وہ خود لکھتے تھے۔کاتب نے یا ان کے تلامذہ نے اس میں کسی قسم کی تبدیلی کو خیانت شمار کیا اور تحریر کی بعینہ نقل چھاپ دی گئی۔آپ کے تلامذہ نے تبدیلی کو خیانت کیوں نہیں سمجھا؟
جب آپ شیئر فرما رہے ہیں تو آپ کے علم میں بھی یہ ہو گا کہ آپ کے نام کے ساتھ کسی نے آپ ہی کی تحریر میں ایسا اضافہ کر دیا ہے کہ قارئین کو یقینا شک ہو گا کہ یہ عظیم لقب خود آپ نے ہی لکھا ہے۔
کل کے مضمون میں عظیم القاب کی بحث تھی۔لفظ مولانا اور مفتی کا حال یہ ہے کہ اگر نقیب اجلاس کہہ دے کہ مولانا فلاں صاحب یا مفتی فلاں صاحب خطاب کو تشریف لا رہے ہیں تو شاید مفتی صاحب اور مولانا صاحب اسے پسند نہ کریں۔
لفظ مولانا کا اطلاق اب عوام الناس میں سے ان لوگوں پر بھی ہوتا ہے جو داڑھی رکھتے ہوں اور پابند صوم و صلات ہوں۔
آج سے دس سال قبل مفتی کا لقب باوزن تھا,لیکن اب مفتی کا لقب بھی اپنی اہمیت کھو چکا ہے۔
اپنے قلم سے خود کو مولانا/مفتی لکھنا/کہنااسی وقت صحیح ہے,جب کہ کوئی حاجت ہو,مثلا لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ یہ عالم دین ہیں تو ان سے بوقت ضرورت شرعی مسائل دریافت کیے جائیں۔
بلا حاجت خود کو عالم ومفتی لکھنے کا جواز میری نظر میں ظاہر نہیں ہو سکا۔دیوان لوح وقلم:دفتر اول ص 131-132میں فتاوی رضویہ اور بہار شریعت کے حوالے سے کچھ عبارتیں ہم نے نقل کی ہیں۔اصل ماخذ میں ان عبارتوں پر غور کر لیا جائے۔
کل کے مضمون میں بقلم خود مولانا/مفتی لکھنے کی بحث نہیں ہے۔بلکہ بقلم خود عظیم القاب کی بحث ہے۔
دوسرے لوگ کچھ لکھ گئے تو حد جواز کو دیکھنا ہو گا۔اگر کوئی ہمیں مجتہد مطلق لکھ دے تو یقینا یہ خلاف حقیقت ہے۔چند سال قبل حضرت امیر دعوت اسلامی صاحب قبلہ کو کسی نے مجدد لکھ دیا تھا تو انہوں نے انکار کیا۔
حد جواز کے علاوہ اپنے نفس امارہ پر بھی غور کرنا ہو گا۔اگر نفس امارہ خوشی محسوس کرتا ہے تو یہی مصیبت ہے۔نفس امارہ خود کشی کر لے تو یہی ہمارے لئے نفع بخش ہے۔
ہم سب کو کوشش کر کے نفس لوامہ تک پہنچنا چاہئے۔پھر جسے اللہ نوازے تو نفس مطمئنہ تک رسائی کی راہ بھی ہموار ہو سکتی ہے۔نفس امارہ کے چنگل سے باہر آتے ہی ان شاء اللہ تعالی بہت سی برائیوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔
ایک بات یہ بھی مد نظر رہے کہ احادیث طیبہ میں علمائے کرام کے بہت سے فضائل وارد ہوئے۔
ان کی تشریحات میں اختلاف ہے۔ان احادیث مقدسہ میں علمائے ظاہر مراد ہیں یا علمائے باطن؟علمائے ظاہر میں کس درجے کے علما مراد ہیں؟یہ سب قابل تحقیق ہیں۔
کوئی یہ نہ سمجھے کہ میں اپنے احباب اور اپنے امثال ونظائر کو احادیث نبویہ میں مذکور فضائل وکرامات سے معری اور خالی سمجھتا ہوں۔ہرگز نہیں۔
احادیث مقدسہ میں علمائے دین کے ساتھ طلبائے علوم دین کے بھی بہت سے فضائل وارد ہوئے ہیں تو میں اور میرے امثال و نظائر میں سے جو احباب دینی علوم کے درس وتدریس اور تعلیم و تعلم میں مشغول ہیں,وہ طالبان علوم دینیہ کے فضائل سے آراستہ ہیں,بشرطے کہ پابند شرع ہوں,ورنہ نہیں۔
جلسوں کے اشتہارات میں بھی القاب وآداب میں مبالغہ سے ترقی ہو کر غلو کی منزل آ چکی ہے۔نقیب اجلاس اگرالقاب میں سادگی اختیار کرے تو ان کو دعوت ہی نہ ملے۔روزی روٹی کا سوال ہے۔تاہم کسی اور نوعیت سے اپنی نقابت کو حسن و جمال بخشیں اور گڑھی ہوئی کرامتوں کا بیان بند کریں۔