نتیجۂ فکر: شمس الحق علیمی، مہراج گنج
خدا کے دین کے اک پاسباں ہیں حافظِ ملت
شہِ دیں پر چھڑکتے اپنی جاں ہیں حافظِ ملت
کس وناکس سبھی پرہی عیاں ہیں حافظِ ملت
علومِ دین کے کوہِ گراں ہیں حافظِ ملت
خدا کے فضل سے دیکھو مبارک پور میں جاکر
برستی ہے سدا رحمت جہاں ہیں حافظ ملت
جسے پڑھنا ہے جاکے پڑھ لے روضے پر کھڑے ہو کر
جہاں میں آج بھی روشن بیاں ہیں حافظ ملت
مبارک پور کی گلیاں اُنہیں سے ہی مہکتی ہیں
فقط گل ہی نہیں اک گلستاں ہیں حافظ ملت
مقدر کا دھنی وہ ہو گیا شمسی زمانے میں
پڑھا جس نے وہاں جا کر جہاں ہیں حافظ ملت