تحریر : محمد عمر نظام آبادی
اسلامی تعلیمات بندے کو اپنے خالق کے ساتھ وفا شعاری، عبدیت و بندگی خدا کی محبت میں علائق دنیا سے بے نیازی، خودسپردگی، شرک سے نفرت، اور حق کی دعوت سکھاتی ہے ؛ چنانچہ قربانی (جو کہ ایک اہم عبادت اور شعائر اسلام میں سے ہے ) کا مقصد بھی یہی ہے کہ تقربِ خداوندی کے حصول کی نیت سے حکمِ ربانی کے سامنے خواہشاتِ نفسانی کو ملیامیٹ کر دیا جائے؛ مگر حیف صد حیف کہ اس طرف ہمارے ذہنوں کی رسائی تک نہیں ہوتی؛ حالانکہ اصل مقصود اللہ تعالی کا خوف و خشیت دل میں جاگزیں ہو جانا اور ہر معاملے میں شریعت اسلامی کا تابع فرمان بن جانا ہے؛ کیوں کہ جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی عقل اپنے علم اپنی رشتہ داری کسی چیز کو بھی اللہ کے حکم کے مقابلے میں ترجیح نہیں دی؛ اسی طرح ہم کو بھی چاہیے کہ جب خدا کا حکم آ پہنچے تو وہاں نہ اپنی عقل کو ترجیح دیں نہ اپنا علم کو نہ کوئی اور چیز آڑے آئے ؛ لیکن افسوس کہ آج کل بعض کسل پسند، کوتاہ نظر لوگ شریعت سے ناواقفیت کی وجہ سے اور مادیت پرستی کی بنیاد پر قربانی کے بجائے صدقہ پر زور دیتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ جانور قربان کرنے کے بجائے اگر اس کی قیمت غرباء میں تقسیم کردی جائے، اور ان کی ضروریات کی تکمیل کردی جائے، تو غریبوں کی امداد ہوجائے گی اور یہ ان کے حق میں بہتر اور مفید رہے گا؛ حالانکہ ان کی یہ بات سراسر بے بنیاد اور مبنی بر جہالت ہے؛ کیوں کہ اللہ کی شریعت میں کسی کو مداخلت اور رد وبدل کا کوئی اختیار ہی نہیں، دوسری وجہ یہ کہ قربانی کا مقصد غریبوں اور ضرورت مندوں کی امداد کرنا نہیں ہے؛ کیوں کہ اس کے لئے تو شریعت نے زکاۃ وصدقات کا ایک مکمل نظام بنایا ہے؛ بلکہ اس کا مقصد محبتِ الہی کا مظاہرہ اور نفس کشی کا ذریعہ ہے؛ جیسا کہ حضرت ابراہیم حضرت اسماعیل علیہما السلام نے اس کا نمونہ پیش کیا، اس لئے قربانی میں جانوروں کے ذبح کرنے کو ان ایام میں سب سے زیادہ پسندیدہ عبادت قرار دیا گیا ہے، اور اس کے ذریعہ یہ مزاج بنانا مقصود ہے کہ جب بھی بندہ کو کوئی حکم دیا جائے تو وہ بلا چوں چراں اس کی پابجائی کے لئے تیار ہو کر اس کو عملی جامہ پہنائے، اپنی عقل کو طاق میں رکھتے ہوئے اس پر عمل پیرا ہوجائے
اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبانِ عقل
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دو
قربانی کا کوئی متبادل نہیں شریعت کی روشنی میں:
قربانی محض جانور کے قربانی کرنے یا گوشت خوری کا نام نہیں؛ بلکہ تقربِ خداوندی اور رضائے الٰہی کہ حصول کے لئے اپنا سب کچھ قربان کرنے اور بارگاہ اَحَدیت میں فدا کارانہ جذبۂ قلبی کے ساتھ نذرانۂ عبودیت پیش کرنے کا نام ہے ، اور اس کا کوئی بدل نہیں؛ جیسا کہ احادیثِ مبارکہ سے بھی معلوم ہوتا ہے؛ چنانچہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”اس دن میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک (قربانی کے جانور کا)خون بہانے سے بڑھ کر بنی آدم کا کوئی عمل پسندیدہ نہیں ہے“۔( سنن الترمذي، فضل الأضحیة، رقم الحدیث:۱۴۹۳) اسی طرح حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ” کسی کام میں مال خرچ کیا جائے تو وہ عید الاضحٰی کے دن قربانی میں خرچ کیے جانے والے مال سے افضل نہیں“۔( سنن الدراقطني، کتاب الأشربة، رقم الحدیث: ۴۳)
مختصر یہ کہ صاحبِ مرقاة المفاتیح لکھتے ہیں کہ ”بعض فقہاء کے نزدیک قربانی واجب ہے اور بعض کے نزدیک سنتِ موٴکدہ ؛لیکن بہرصورت اس دن میں قربانی کرنا یعنی: خون بہانا متعین ہے، اس عمل کو چھوڑ کر جانور کی قیمت صدقہ کر دینا کافی نہیں ہو گا؛ اس لیے کہ صدقہ کرنے میں شعائرِ اسلام میں سے ایک بہت بڑے شعار کا ترک لازم آتا ہے؛ چنانچہ! اہل ثروت پر قربانی کرنا ہی لازم ہے۔ “(مرعاة المفاتیح: ۵/۷۳) اور قربانی نہ کرنے والوں کو تنبیہ کرتے ہوئے نبی ﷺ نے فرمایا: جوشخص قربانی کی وسعت رکھتا ہو اورپھر بھی قربانی نہ کرے تو ایسا شخص ہماری عیدگاہ کے قریب بھی نہ آئے۔(سنن ابن ماجہ:٣١٢٣)
عقل کے میزان میں
ذرا ٹھہر کر یہ سوچنا چاہیے کہ قربانی ایک مستقل عبادت ہے، جیسے نماز پڑھنے سے روزہ، اور روزہ رکھنے سے نماز ادا نہیں ہوتی، زکاۃ ادا کرنے سے حج ادا نہیں ہوتا، ایسے ہی صدقہ خیرات کرنے سے قربانی ادا نہیں ہوتی؛ کیوں کہ رسول اللہﷺ کے ارشادات اور تعامل اور پھر تعامل صحابہ اس پر شاہد ہیں۔
ایک سبق آموز حکایت!
جو لوگ صرف اپنی عقل پر تکیہ لگا کر قربانی جیسی مہتمم بالشان عبادت سے محروم رہتے ہیں ان کے لئے عبرت اور نصیحت کے طور پر یہاں ایک حکایت (جسے حضرت تھانوی ؒنے نقل کیا ہے) تحریر کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ” ایک شخص تھے جو قربانی کے دنوں میں جانور ذبح نہ کرتے تھے ؛ بلکہ اس کی قیمت خیرات کردیا کرتے تھے، ایک رات کو خواب میں کیا دیکھتے ہیں کہ میدانِ قیامت برپا ہے، اور پل صراط قائم ہے، اور دوسرے کنارے پر جنت ہے، بہت لوگ اپنی اپنی سواریوں پر سوار ہو ہو کر پل صراط کو طئے کرتے ہیں اور جنت میں داخل ہوجاتے ہیں اور یہ شخص حیران اور پریشان کھڑا ہے کہ میں کس طرح سے گزروں نہ میرے پاس کوئی سواری ہے اور نہ کوئی حیلہ ہے اور یہ شخص یہ بھی سوچ رہا تھا کہ یہ سواریاں لوگوں کے پاس کہاں سے آتی ہیں اور کون دیتا ہے، اچانک آواز آئی کہ یہ سواریاں ان لوگوں کی ہیں جنہوں نے دنیا میں اپنے لئے تیار کی تھیں، یعنی یہ سواریاں قربانی کے جانور ہیں؛ چونکہ تم قربانی نہیں کرتے ہو؛ لہٰذا تم سواری سے محروم ہو، جب آنکھ کھلی تو بہت متاثر ہوئے اور قربانی نہ کرنے سے توبہ کی اور قربانی کرنے لگے“۔ صاحبو! قربانی کا یہ نتیجہ تو بالکل ظاہر ہے، حدیث شریف میں اس کی صراحت موجود ہے: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اپنے قربانیوں کو خوب طاقتور کیا کرو یعنی کھلا پلا کر؛ کیونکہ وہ پل صراط پر تمہاری سواریاں ہوگی۔(کنز العمال)
(احکامِ قربانی عقل و نقل کی روشنی میں:٥٦)
خلاصۂ تحریر:
قربانی کا مقصد محبتِ الہی کا مظاہرہ ہے، جو صرف قربانی کی صورت میں ہی ظاہر ہوگا، اور اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ ہر چیز کو عقل کی کسوٹی پر پرکھنا اور عقل کو معیار بنانا درست نہیں؛ کیوں کہ حکم خداوندی کی ہر بات کا ادراک عقل سے ممکن نہیں؛
لہٰذا جو لوگ اس مرض کا شکار ہوکر قربانی کے بجائے صدقہ دیا کرتے تھے وہ اس سے باز آجائیں اور منشاء الٰہی کو سمجھنے کی کوشش کریں اور سابقہ سالوں کی قربانی کی قضا کر کے فرض کو اپنے ذمہ سے اتار دیں،
مختصر یہ کہ
اب جس کے جی میں آئے وہی پائے روشنی
ہم نے تو دل جلا کے سر عام رکھ دیا