اعتراض کے مختلف انداز :
- قرآن ہی کافی ہے، حدیث کی کیا ضرورت ہے؟
- قرآن میں وحی کی پیروی کرنے کا تذکرہ ہے اور وحی صرف قرآن ہے!
- قرآن میں کل شیء (ہر چیز) کی تفصیل اور وضاحت ہے لہٰذا حدیث کی کیا ضرورت ہے؟
- قرآن کی تفسیر کے لیے اگر حدیث کی ضرورت ہو تو پھر قرآن کو حدیث کا محتاج ماننا پڑے گا!
جواب:کیا قرآن کریم تشریح طلب ہے؟
کئی مقامات پر قرآن مجید میں بظاہر یہ دعویٰ نظر آتا ہے کہ اس کی آیات کریمہ جو کہ سمجھنے کے لیے آسان اور معانی کے اعتبار سے واضح ہیں، خود اپنی ہی تشریح ہیں۔ لہٰذا اس کے لیے کسی بیرونی تفسیر کی حاجت نہیں ہے، لہٰذا پیغمبری تشریحات کو اتنی اہمیت کیوں دی جائے؟موضوع کے اعتبار سے مشترک بہت سی آیات کریمہ کے یکجا مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم بنیادی طور پر دو قسم کے موضوعات سے تعرض کرتا ہے۔ ایک تو وہ جن کا تعلق سادہ حقائق اور ان کے عمومی بیانات سے ہے اور جس میں سابقہ انبیائے کرام علیہم السلام اور ان کی گم گشتہ امتوں کے واقعات، بنی نوع آدم پر اللہ تعالٰی کے احسانات کا ذکر، زمینوں اور آسمانوں کی تخلیق، اللہ تعالٰی کی حکمت و قدرت کے کائناتی مظاہر، جنت کی نعمتوں، دوزخ کے عذاب اور دیگر ملتے جلتے مضامین بیان کئے گئے ہیں۔موضوعات کی دوسری قسم میں شریعت کے قوانین اور علتیں، اسلامی قانون کے متفرق پہلو، نظریاتی معاملات کی تفاصیل، احکام کے مصالح اور حکمتیں اور اسی قسم کے علمی موضوعات شامل ہیں۔پہلی قسم کے موضوعات جن کے لیے قرآن کریم میں “ذکر” ( نصیحت، موعظت، درس) کی اصطلاح استعمال ہوئی ہے یقیناً سمجھنے میں اس قدر آسان اور عام فہم ہیں کہ کوئی ناخواندہ شخص بھی کسی دوسرے کی مدد کے بغیر ان سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ قرآن کریم اسی قسم کے موضوعات کے بارے میں کہتا ہے۔وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍ ﴿القمر:٢٢﴾” اور ہم نے قرآن کو نصیحت حاصل کرنے کے لیے آسان کر دیا ہے، سو کیا کوئی نصیحت حاصل کرنے والا ہے۔” (۲۲ – ۵۴)یہاں للذکر ( نصیحت حاصل کرنے کےلیے) کے الفاظ بڑھا کر قرآن کریم نے اس طرف اشارہ کر دیا ہے کہ قرآن مجید کا عام فہم ہونا پہلی قسم کے موضوعات سے تعلق رکھتا ہے۔ بنیادی طور پر آیت کریمہ کا زور قرآن کریم سے سبق حاصل کرنے اور اسی مقصد کے لیے اس کے آسان اور عام فہم ہونے پر ہے۔اس سے یہ مسئلہ قطعاً نہیں نکالا جا سکتا کہ قانونی نزاکتوں کے استنباط، اسلامی قوانین کی تشریحات اور نظریاتی مباحث پر بھی اس کے آسان اور عام فہم ہونے کا اسی طرح اطلاق ہوتا ہے۔ اگر اس قسم کے موضوعات کی تشریح اور تعبیر بھی ہرکس و ناکس کے لیے عام ہوتی خواہ اس کی علمی صلاحیت کتنی ہی کم کیوں نہ ہو، تو قرآن کریم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو کتاب کی ” تعلیم” اور ” تفسیر” کے فرائض ہرگز تفویض نہ کرتا۔ ایسی آیات کریمہ کے حوالے سے، جو تشریح طلب ہیں خود قرآن کریم میں ارشاد ہے۔وَتِلْكَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ ۖ وَمَا يَعْقِلُهَا إِلَّا الْعَالِمُونَ ﴿العنکبوت:٤٣﴾” اور ہم ان قرآنی مثالوں کو لوگوں کے لیے بیان کرتے ہیں اور ان مثالوں کو بس علم والے ہی لوگ سمجھتے ہیں۔” (۴۳- ۲۹)اس سے واضح ہوا کہ پہلی قسم کے موضوعات کے ” آسان اور عام فہم” ہونے کا مطلب ایک ایسے پیغمبر کی ضرورت کا انکار قطعاً نہیں ہے جو قرآن کریم کے قانونی معاملات اور علمی نتائج کی تشریح کر سکے۔
٭اعتراض ٭:
انکارِ حدیث کے لئے سب سے اہم اور بنیادی نکتہ یہ تلاش کیا گیا ہے کہ قرآنِ مجید میں ہر مسئلہ کی تفصیل بیان کردی گئی ہے، اس لئے حدیث کی ضرورت نہیں ۔اس کے ثبوت میں قرآن مجید کی صفت اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمائی ہے کہ وہ تِبْيَانًا لِكُلِّ شَيْءٍ (النحل:۸۹) یعنی اس میں ہرچیز کوکھول کھول کربیان کردیا گیا ہے، سورۂ نحل میں ہے وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِكُلِّ شَيْءٍ (النحل:۸۹) وَهُوَالَّذِي أَنْزَلَ إِلَيْكُمُ الْكِتَابَ مُفَصَّلًا (الانعام:۱۱۴) اسی طرح قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا مَافَرَّطْنَا فِي الْكِتَابِ مِنْ شَيْءٍ (الانعام:۳۸) کہ ہم نے قرآن میں کسی بھی چیز کا حکم بیان کرنا نہیں چھوڑا ہے؛ لہٰذا جب قرآن کریم میں اس درجہ جامعیت ہے کہ ہرچیز کوبیان کردیا گیا تواب کسی دوسری دلیل کی کیا حاجت باقی رہ جاتی ہے جوحدیث کا سہارا لیا جائے؟۔
٭تبصرہ٭ :قرآن کریم کی جامعیت کا دعویٰ:
آیت :”وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِكُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً وَبُشْرَى لِلْمُسْلِمِينَ”۔(النحل:۸۹)ترجمہ: اور ہم نے آپ پر ایسی کتاب اتاری جو ہر چیز کا کھلا بیان ہے ہدایت اوررحمت ہے اورماننے والوں کے لیے خوشخبری ہے۔قرآن کریم کی مذکورہ بالاآیت بتارہی ہیں کہ قرآن کریم نہایت جامع اور مکمل کتاب ہے اور اس میں ہر انسانی ضرورت کا پورا پورا حل موجود ہے،قرآن کریم کی جامعیت کا یہ دعویٰ کہاں تک حالات سے ہم آہنگ ہے؟اورزندگی کے تمام مسائل کیا اپنی پوری تفصیل کے ساتھ ہمیں اس میں ملتے ہیں یا نہیں؟ اس پر ذرا اور غور کیجئے، یہ حقیقت ہے اور اس کے تسلیم کرنے سے چارہ نہیں کہ بہت سے قرآنی احکام ایسے مجمل ہیں کہ جب تک اور کوئی ماخذ علم ان کی تفصیل نہ کرے ان کی عملی تشکیل نہیں ہوسکتی اور زندگی کے لا تعداد مسائل ایسے بھی ہیں جن کے متعلق واضح جزئی ہمیں قرآن کریم میں نہیں ملتی،پس قرآن کریم کی جامعیت کی تشریح ایسی ہونی چاہئے جس سے یہ دعویٰ واقعات سے ہم آہنگ بھی ہوسکے۔
٭قرآن کریم کی جامعیت کا صحیح مفہوم٭
آج تک کسی نے قرآن کریم کی جامعیت کا یہ مفہوم نہیں لیا کہ اس کی کسی آیت میں کوئی اجمال (Brevity) یا کسی بیان میں کوئی تقیید (Particularisation) نہیں ، اس نے ہر باب کی غیر متنا ہی جزئیات کا بھی احاطہ کرلیا ہے اور ہر حکم کی تمام حدود اور تفصیلات (Details) اس نے بیان کردی ہیں نہ یہ کسی کا دعویٰ ہے نہ اس کا کوئی قائل ہے،قرآن کریم کی جامعیت کا مفہوم یہ ہے کہ اس میں تمام انسانی ضرورتوں کا حل ملتا ہے اور لا تعداد جزئیات کے احکام کے اصول وکلیات اورضوابط کی شکل میں اس میں موجود ہیں، علامہ شاطبیؒ (۷۹۰ ھ) لکھتے ہیں:ترجمہ: قرآن مجید مختصر ہونے کے باوجود ایک جامع کتاب ہے اور یہ جامعیت تبھی درست ہوسکتی ہے کہ اس میں کلیات کا بیان ہو۔ (الموافقات:۳/۱۳۲)پس جب قرآن پاک میں ایسے اصول و کلیات ہیں جن کے تحت لا تعداد جزئیات کا فیصلہ قرآن کریم کی جامعیت کی تصدیق کرے تو یہ جاننے کی اشد ضرورت ہے کہ ان مواقع پر قرآن کریم کی اصولی دعوت کیا ہے؟ وہ ان کلیات کی تفصیل کے لیے کس کی طرف رجوع کرنے کا کہتا ہے؟قرآن کریم نے اپنے احکام وارشاد کے ساتھ ساتھ ایک عظیم شخصیت کا تعارف بھی کرایا ہے اوراس کو اپنے ساتھ لازم کیا ہے، قرآن کریم مسلمانوں کو اس کے عمل سے اسوۂ حسنہ کی دعوت دیتا ہے، یہ ایک ایسی اصل عظیم ہے جس کے تحت ہزاروں مجملات کی تفصیل اور لاکھوں جزئیات کا حل مل جاتا ہے،قرآن کریم کی اس دعوت کے تحت اس اسوہ حسنہ کی تعمیل عین قرآن پاک کی تعمیل شمار ہوگی،یہ کلیدی آیات ہیں جن کے تحت لا تعداد مسائل حل ہوجاتے ہیں.چند آیات ملاحظہ کیجئے۔
(۱)”لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ”۔ )الاحزاب:۲۱)ترجمہ: بے شک تمہارے لیے رسول اللہﷺ کی ذات میں بہترین نمونہ موجود ہے۔
(2)”یَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ”۔ (النساء:۵۹)ترجمہ: اے ایمان والوحکم مانو اللہ کا اورحکم مانو(اس کے) رسول کا۔
(3)”مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ”۔ (النساء:۸۰)ترجمہ: جو اللہ کے رسول کی اطاعت کرتا ہے پس بیشک وہ اللہ کی اطاعت کرچکا۔یہاں رسول کی اطاعت صیغہ مضارع (Present) سے بیان فرمائی جو رہتی دنیا تک جاری رہے گی اوراللہ کے اطاعت کو ماضی (Past) سے تعبیر فرمایا کہ مومن ایمان لانے کے ساتھ ہی اسی اصول کو تسلیم کرچکا تھا کہ زندگی کی ہر ضرورت میں رسول کی اطاعت کی جائے گی اوراسی کے تحت وہ اطاعت رسول کررہا ہے، یہ وہ کلیدی آیات (Key Verses) ہیں جن کے تحت جمیع جزئیات حدیث آجاتی ہیں اورقرآن کریم جمیع تعلیمات رسول پر حاوی قرار پاتا ہے۔
٭اگر احادیث حجت نہیں ہیں تو مندرجہ ذیل سوالات کا جواب ہمیں کہاں سے ملے گا؟ ٭٭ قرآن میں نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ نماز کی حالت میں کھڑے ہونے، رکوع کرنے اور سجدہ کرنے کا ذکر بھی قرآن میں ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ نماز میں پہلے کھڑے ہوں یا پہلے رکوع کریں یا پہلے سجدہ کریں؟ لغت میں ’’رکوع‘‘ کا معنی ہے جھکنا، سوال یہ ہے کہ آگے جھکیں، یا دائیں جھکیں یا بائیں جھکیں؟ پھر رکوع کی حالت میں ہاتھ کہاں ہوں؟ اسی طرح سجدہ کیسے کریں؟ سجدہ ایک کریں یا دو کریں؟٭ قرآن میں زکوٰۃ وصول کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ نہ دینے والوں کو سخت عذاب کی دھمکی بھی دی گئی ہے جس جس قسم کے لوگوں پر زکوٰۃ خرچ کرنی ہے، انھیں بھی بتا دیا گیا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ یہ زکوٰۃ کم از کم کتنے مال پر فرض ہے؟ کتنے فیصد فرض ہے؟ اور کب کب فرض ہے؟٭ قرآن میں جن جانوروں کو حرام اور جن کو حلال قرا ردیا گیا ہے، انکے علاوہ بقیہ جانور حلال ہیں یا حرام؟ مثلا کتا، بلی، گیڈر، بھیڑیا، چیتا، شیر، تیندوا، بندر، ریچھ، ہرن، چیتل، سانبھر، بارہ سنگھا، بھینسا، خرگوش، کوا، چیل، باز، شکرہ، کبوتر، مینا، فاختہ وغیرہ وغیرہ۔ قرآن کریم نے میتۃ یعنی از خود مر جانے والے جانور کوحرام قرار دیا ہے؟ سوال یہ ہے کہ مچھلی جب پانی سے باہر آتی ہے تو مر جاتی ہے، تو اس کا کیا حکم ہے۔ اس کی حلت کو قرآن سے ثابت فرمائیے یا مچھلی کھانا چھوڑیے ۔٭ قرآن میں حکم ہے کہ مسلمان جنگ میں کفار کا جو مالِ غنیمت حاصل کریں، اس کے پانچ حصے کر کے ایک حصہ اللہ اور اس کے رسولؐ کے نام پر الگ نکال دیا جائے جو یتیموں، مسکینوں اور حاجت مندوں وغیرہ میں بانٹ دیا جائے۔ سوال یہ ہے کہ باقی چار حصے کیا کیے جائیں؟ تمام مجاہدین پر برابر برابر بانٹ دیئے جائیں یا فرق کیا جائے؟ اگر ان سب کو برابر دیں تو کیوں دیں؟ اور اس کا ثبوت قرآن میں کہاں ہے؟ اور اگر فرق کریں تو کس حساب سے فرق کریں؟ قرآن سے اس کا حساب بتایے اور اگر سالار کی رائے پر چھوڑ دیں تو قرآن میں کہاں لکھا ہے کہ سالار کی رائے پر چھوڑ دیں؟٭ قرآن میں حکم ہے کہ چوری کرنے والے مرد اور عورت کے ہاتھوں کو کاٹ دو۔ اب سوال یہ ہے کہ دونوں ہاتھ کاٹیں یا ایک ہاتھ؟ اور اگر ایک ہاتھ کاٹیں تو داہنا کاٹیں یا بایاں؟ پھر اسے کاٹیں تو کہاں سے کاٹیں؟٭ قرآن میں یہ ارشاد ہے کہ جب جمعہ کی نماز کے لیے پکارا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خرید و فروخت چھوڑ دو۔ سوال یہ ہے کہ جمعہ کے دن کب پکارا جائے؟ کس نماز کے لیے پکارا جائے؟ کن الفاظ کے ساتھ پکارا جائے؟ جس نماز کے لیے پکارا جائے، وہ نماز کیسے پڑھی جائے؟
اس طرح کے ہر شعبے اور موضوع پر سینکڑوں اٹھائے جاسکتے ہیں ، ان سوالات کو ایک بار غور سے پڑھ لیجئے اور بتائیے کہ اگر قرآن میں ساری تفصیلات موجود ہیں تو انکی تفصیلات کہاں ہیں ؟ قرآن کہتا ہے کہ﴿لَقَد كانَ لَكُم فى رَسولِ اللَّهِ أُسوَةٌ حَسَنَةٌ (سورۃ الاحزاب 21) آپ بتائیے اس سلسلے میں ‘رسول اللہ ﷺ کا عمل کیا تھا؟ اور اس عمل کی تفصیلات کہاں سے ملیں گی؟ اگر قرآن میں ملیں گی تو کس سورہ، کس پارے، کس رکوع اور کن آیات میں؟ اور حال یہ ہے کہ جو مسائل پیش آتے ہیں،ان کے متعلق قرآن میں رسول اللہ ﷺ کا اُسوہ ملتا ہی نہیں۔ اور اگر کہیں ملتا بھی ہے تو آپ اسے ‘ایرانی سازش’ کہہ کر اس پر تقدس کا خول چڑھا کر لوگوں کو بیوقوف بنانے لگ جاتے ہیں ۔ اب آپ ہی بتائیے کہ اللہ کی رضا اور آخرت کی کامیابی چاہنے والے بے چارے کریں تو کیا کریں؟
٭غلام احمد پرویز صاحب کا ایرانی سازش سے استفادہ ٭پرویز صاحب چوری کی سزاؤں کے بارے میں سنت اور احادیث پر انحصار کرتے ہیں لیکن سنت کو ماخذ قانون بھی نہیں مانتے۔ملاحظہ فرمائیے لکھتے ہیں ”” چوری کی سزا قطع ید ہے یہ زیادہ سے زیادہ سزا ہے جو قرآن نے متعین کی ہے کس قدر چوری اور کن حالات میں چوری کے جرم میں مجرم اس سزا کا مستحق ہوگا اور کن حالات میں اس سے کم سزا کا سزاوار ہوگا۔ اس کے متعلق فقہ اور روایات دونوں میں تفصیلی مباحث موجود ہیں۔ روایات (مسلم اور بخاری) میں ہے کہ دینار سے کم کی چوری میں اس کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ فقہ میں اس کو نصاب کہتے ہیں بعض کے نزدیک نصاب ایک دینار ہے اور بعض کے نزدیک ربع (ایک چوتھائی) دینار ی یہ تو رہا مقدار کا سوال۔ اب لیجیے احوال و ظروف کو، فقہ کی رو سے چور کو اس تک قطع ید کی سزا نہیں دی جائے گی جب اس نے کسی محفوظ جگہ سے نہ چرایا ہو ‘‘۔ (قرآنی فیصلے ص ۱۶۶)پھر اس کے بعد مال محفوظ کی تعریف میں ’’سارق کسے کہتے ہیں‘‘ کے ذیلی عنوان کے تحت نسائی کی ایک روایت اور روایت حضرت عمرؓ کا قول اور امام ابن حزم کا ایک قول بطور حجت پیش فرماتے اور نتیجہ یہ پیش فرماتے ہیں کہ: “پہاڑوں پر آوارہ چرنے پھرنے والے جانوروں میں سے اگر کوئی جانور لے جائے تو وہ چور نہیں ہوتا۔ بھوکا شخص باغ سے پھل توڑ کر کھالے تو وہ بھی چور نہیں ہوتا۔ قحط کے زمانے میں چوری کرنے والا بھی چور نہیں ہوتا۔ لہٰذا ان پر قطعِ ید کی حد جاری نہیں ہوگی۔ البتہ قاضی جرم کی نوعیت کے مطابق اسے سزا دے سکتا ہے”۔ (قرآنی فیصلے ص ۱۶۶)جب احادیث پرویز صاحب کے موقف کی تائید میں ہوں تو ان کا استعمال ایمان کا تقاضہ بن جاتا ہے جب پرویز صاحب کے موقف کی تردید ہو رہی ہو تو احادیث کو عجمیوں کی اختراع اور ایرانی سازش قرار پاتی ہے۔
٭خلاصہ ٭:قرآن کریم نے کچھ احکام نہایت وضاحت اورصراحت سے بیان کئے ہیں جیسے قانون وراثت، قانون شہادت، قانون حدود، ایمانیات اوراخلاقیات۔ مگر کچھ احکام ایسے بھی ہیں اور یہ بہت سے ہیں جنہیں قرآن کریم نے مجمل طور پر بیان کیا ہے،قرآن کریم میں ان کی پوری کیفیت ادا نہیں ملتی، پھر قرآن پاک میں کچھ ایسے اشارات ہیں جن کی تفصیل اس میں نہیں ہے اور پھر کچھ مشکلات ہیں جن کی وضاحت کی اشد ضرورت محسوس ہوتی ہے اور پھر اصول قرآنی کی ایسی توسیعات بھی ہیں جن کی پوری جزئیات کا بیان یہاں نہیں ملتا اورنہ یہ عملاً ممکن ہے۔ انہی تفاصیل کے لیے قرآن کے ساتھ حضور ﷺ کو معلم بنا کے بھیجا گیا اور قرآن میں ہی کہا گیا کہ وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَانُزِّلَ إِلَيْهِمْ (النحل:۴۴) یعنی ہم نے آپ کی طرف یہ قرآن اتارا ہے تاکہ جومضامین لوگوں کے پاس بھیجے گئے ہیں، آپ ان کوکھول کرسمجھادیں۔منكرين حديث اس آیت کا انکار کرتے ہوئے كتاب كو ہی مفصّل،مُبِين، مُبَيّن اور تبيان كہتے ہيں ۔ لیکن دوسری طرف اللہ تعالىٰ كى تبيين كے بعد خود تفسيريں بھی لكھتے ہیں ۔ ايك مقام اور دوسرے مقام كے درميان جو خلیج رہ جاتى ہے، اسے پُر كرنے كے لئے وہ اپنے ذہن و اجتہاد سے كام ليتے ہيں ، ربط ِمضامين اور استنباط ِنتائج ميں قرآنى آيات كو اپنے فہم اور سمجھ كے مطابق چلاتے ہيں ۔ انکا ہر فرقہ اسی بين، مفصل اور مبين قرآن كو كھینچ تان كركے اپنے ذہنى تصورات پرمنطبق كرنے كى كوشش كرتا ہے- كيا آج لاہور ہى ميں بلاغ القرآن والوں اور طلوعِ اسلام والوں كى يہى كيفيت نہيں ہے؟يہ تو رہى منكرين حديث كے مختلف فرقوں كى كيفيت، خود پرويز صاحب كى كيفيت يہ ہے كہ وہ اس ميں مفصل ، مبين، مبين قرآن كى آيات كو فضاے دماغى ميں اُٹھنے والى ہر لہر كے ساتھ اپنے تازہ ترين ذ ہنى مزعومات پر كھینچ تان كے ذريعہ منطبق كرتے رہے ہيں – ان كے وسيع خار زار تضادات كى آخر اس كے سوا كيا وجہ ہوسكتى ہے؟اگر ان كے نزديك “اللہ كى تبیانا لکل شئی كے بعد، مزيد كسى تبيين كے كوئى معنى نہيں ہيں تو پهر ‘مفكر ِقرآن’ صاحب كى يہ ‘تفسير مطالب الفرقان‘، يہ ‘قرآنى فيصلے‘، يہ ‘قرآنى قوانين’، يہ ‘تبويب القرآن’، يہ ‘لغات القرآن‘، يہ’مفہوم القرآن‘ يہ سلسلہ ہائے ‘معارف القرآن‘ وغيرہ كتب ، اگر قتل اوقات (Time Killing) كى خاطر بهى نہيں تهى، تو پهر پيٹ كے جہنم كو ايندهن فراہم كرنے كى پيشہ وارانہ ضرورتوں ہى كا تقاضا تها؟كتاب لے كر تشریح پیغمبر كو نہ لينا، نہ صرف يہ كہ تعليم بلا عمل، كتاب بلاپيغمبر اور قرآن بلا محمد كے نرالے مسلك كو اختيار كرنا ہے بلكہ اسى منصب ِرسالت كى تكذيب كرنا بهى ہے جس كا تقاضا ہى يہ ہے كہ رسول كتاب كى تشريح و تفسیر اورتبیین و توضيح كرے- اس كا انكار نفس رسالت ہى كا انكار ہے۔
تحریر: (مولانا) مشرف بیگ اشرف