سیاست و حالات حاضرہ

وقت کے ساتھ تبدیلی فلاح و بہبود کی ضمانت

ایک طویل مدت کی مسافت طے کرتے ہوئے موسمِ گرما اپنی اختتام کو پہنچ رہا تھا ۔ اور ہواؤں کے گرم گرم جھونکوں کی سرسراہٹ و ہرہراہٹ، اور بادِ سموم کی عضلات سوز سموم ہمیں الوداع کہہ کر ایک میعاد معین تک کی چھٹی پر جارہی تھیں۔ اچانک موسم کا تبادلہ ہورہا تھا۔ شبانہ روز نئے نئے احساسات کی آمد و رفت جاری تھیں۔ مثال کے طور دھوپ کی شعاعوں کا ہلکا ہونا، راتوں میں ہلکی، ہلکی سردی کا احساس، دو کیفیاتِ متضادہ سے مل کر ایک نئی کیفیت کا وجودِ امتجاز وغیرہ۔

اس ناگہانی تبادلے سے جسمِ طبعی اور صورتِ نوعیہ کے حالات میں بدلاؤ پیدا ہورہے تھے۔ راتوں کا شب نمی ہونا، شب سے لے کر صبحِ صادق تک بارانِ شبنم، دھند پڑنا، کہرے کے اثرات کا عیاں اور نمایاں ہونا، سردی کا احساس، زکام لگنا، چھینک آنا، اور بخار کی آمد و رفت لگی ہوئی تھی۔ خرابئ طبیعت کا سلسلہ بامِ عروج پر تھا، اور یہ سب موسم کے تبادلے کے اثرات تھے، جو ظہور پذیر اور نمودار ہورہے تھے۔ اور یہی انسانی طبیعت کا تقاضہ بھی ہے کہ اس کو کسی موسم یا ماحول کے سانچے میں خود کو ڈھالنے کی خاطر کچھ وقت درکار ہوتا ہے۔

ایک سمجھنے کی بات یہ ہے کہ انسان بارہا اس طرح کی کیفیات کا سامنا کرتا رہتا ہے۔ مثال کے طور پر گرمی کے بعد سردی، پتجھڑ کے بعد ربیع، اور خزاں کے بعد بہاراں۔ اب غور کرنے کی بات یہ ہے کہ وہ انسان جو اتنی تبدیلیاں فقط سال بھر میں حسبِ موسم قبول کرتا رہتا ہے۔ لیکن جب قوم و ملت کی بات آتی ہے تو ایک قدم آگے بڑھانے کی بجائے خود کی پرانی روش پر چلنے میں ہی بھلائی شمار کرتا ہے۔

انقلابی جذبات تو رکھتا ہے آج کا مسلمان مگر دور اور وقت کے ساتھ انقلاب کے درپئے ہونے سے قطراتا ہے۔ ضرورت ہے کہ اب مسلمان بھی تبدیلیوں کو قبول کریں اگر اپنی بحالی چاہتے ہیں تو۔ کیوں کہ وقت کی اہمیت اہل حل و عقد اور اہلِ علم و اربابِ بصائر کے نزدیک مسلم ہے۔کہ بروقت کردہ کار منزل کی انتہاء کو پہنچا دیتا ہے، جبکہ اس کہ برعکس وقت پر نہ کردہ عمل انتہائی سطحی طور عالمِ سفلی کا دورہ کرواتا ہے۔

سو ہمیں اب اپنے داؤ کو بدلنا ہوگا جذباتیت کو چھوڑ کر ایک دیرینہ تدبیر اور دستور العمل، عمل میں لانا ہوگا تاکہ وہ ہماری فلاح و بہبود کا ضامن ہو۔ جیسے موسم سرما میں سردی سے بچنے کی ایک دیرپا سامان کرتے ہیں۔
(۱) مثال کے طور پر جہاں تک میں سمجھتا ہوں ہمارے نصابِ تعلیم میں کچھ اضافے کی ضرورت درپیش ہے۔ مثلا دنیاوی علوم بھی نصابِ تعلیم میں شامل ہونے چاہئے۔ ملک کے قوانینِ و آئین اور لا بھی پڑھائی جانی چاہئے تا آنکہ ہم اپنے حقوق کی بابت بات کرنے میں قاصر الکلامی کے شکار نہ ہوں۔

(۲)۔ ہمارے سالانا تعلیمی مدت میں کچھ تخفیفات ہونی چاہئے۔ نو سالہ تعلیمی معاملہ فضیلت تک بڑی ہی لمبی مدت اور شدتِ تعب کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے۔ اسکی بجائے دس سالہ ایک ایسی کورس تیار کی جائے جس میں اعدادیہ تا تحقیق اور دسویں ایک ساتھ لے کر چلیں تو یہ ایک انقلاب کی ضمانت ہو سکتی ہے ہمارے حق میں۔

(۳)۔ ہمیں چاہئے کہ ہر شعبہ ہر میدان میں اپنے بندوں کو پیش، پیش رکھیں مثلا جیسا میں نے بتایا تو ہوگا یہ کہ ہمارے طلبہ تنگئیِ معاش کی بھی سطحیت سے نکل کر کام کریں گے۔ آمدم بر سرِ مطلب کہ ہر شعبہ مثلا پولیٹکس، سائنس، فزکس، ریاضی، معدنیات، فلسفہ، پولیس، آرمی، کیبینیٹ، پارلیمنٹ، اور دیگر شعبہ جات میں اپنے بندوں کو کھڑا کیا جائے تاکہ وہ ہماری بحالیٔ قوت کا سبب ثابت ہوں۔

(۴)۔ سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ ہمارے بچے، یا کہیں ہماری نسل تعلیم کے میدان میں، یا یوں کہیں ہر میدان میں خستہ حالی کے شکار ہے۔ تعلیم یافتہ نافی اور نہ دینی تعلیم سے آشنائی۔ ہر شعبہ میں فقط "ہاتھ تو آیا پر منھ نہ لگا” کے مصداق ٹہرے۔ لہذا اولا تو ہمیں تعلیم کی حلیہ سے محلی ہونے کی حاجت ہے تا آنکہ کچھ کرنے پر قادر ہوں۔

(۵)۔ آخری بات کہہ کر رخصت ہو رہا ہوں یاد رہے۔ میں ہرگز نہیں کہتا کہ آپ اپنے اصول و قوانین کو بالکیہ تبدیل کردیں۔ بلکہ میرا کہنا یہ ہے کہ آپ اپنے طریقِ کار میں ترمیم و تبدیلی کے محتاج ہیں۔ یعنی یوں ایک نئے نصاب کی تشکیل دی جائے کہ تمام علومِ دنیاوی کے ساتھ علوم دینی کو بھی سکھایا جائے۔ اور جو عقائد و نظریات معارضِ حق ہوں ان کے ابطال میں بھی سرگرم رہیں۔ اس سے ہوگا یہ کہ ہم اپنے جملہ عقائد اور مزعومہ فلاسفہ، گمراہ عقائد و نظریات، موجودہ سائنس کی قباحتوں اور شناعتوں سے بھی محفوظ و مامون ہو سکتے ہیں۔

نوٹ:- یہ ایک تجویز اور مشورہ یے جو میں نے پیش کیا۔ کوئی حتمی اور لازمی نہیں کہ میں نے بطور ایجاب سب پر لاحق کردیا۔ فقط مشورہ ہے اگر ہمارے منتظمین اور قوانین سازوں کو بھلی لگے تو ضرور اپنی آرا سے نوازیں۔
(واللہ تعالی و رسولہ اعلم باالصواب)

ازقلم: محمد اختر رضا امجدی
متعلم: جامعہ امجدیہ رضویہ، گھوسی مئو یوپی

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے