تحریر: ضیاءالرحمن امجدی، علی گڑھ
ہندوستان کا شمار دنیاکے سب سے بڑے جمہوری ملکوں میں ہوتا ہے جہاں ہندومسلم ،سکھ ،عیسائی سبھی مذاہب کے لوگ بڑی محبت سے رہتے چلے آرہے ہیں، اس لیے کہ ہندوستان کوانگریزوں سے آزاد کرانے کے لیے تمام مذاہب کے لوگوں نے مل کر لڑائی لڑئیں اور 15اگست 1947ء کو ہندوستان آزاد ہوا، پھر ہندوستان کو چلانے کے لیے 26نومبر 1949ء کوایساقانون بنایا گیا جس میں ہر مذاہب کے لوگوں کو اپنے اپنے مذہب کے اعتبار سے رہنے کاحق دیا گیا، یہ قانون 26جنوری1950ء کونافذکیا گیا، اس قانون کے بعد ہندوستان میں جمہوری طرز کا آغاز ہوا ۔26جنوری کے دن ہندوستان میں "یوم جمہوریہ” کے نام سے جس طرح کالج اور یونیورسیٹیوں میں تقریب کا انعقاد کیاجاتا ہے اسی طرح مدارسِ اسلامیہ میں بھی پرچم کشائی کے لیےجشن کی تقریب کا اہتمام کیاجاتا ہے اور طلبہ وعوام کو ہمارےاسلاف نے جنگ آزادی میں جو کارہائے نمایاں انجام دیا اور وطن عزیز کی آزادی کی خاطر اپنی جانوں کا جو نذرانہ پیش کیا، جنہوں نے اپنے وطنِ عزیز کو غلامی کی زنجیروں سے نجات دلانے کے لئے ہنستے ہنستے اپنی جانیں قربان کردیں اس سے باور کرایاجاتاہے، اور یہ بھی بتایاجاتا ہے کہ دوسرے مذاہب کے بنسبت ہندوستان کی آزادی میں مسلمانوں کا رول بہت ہی اہم رہا ہے اور یہ تحریک اصل میں مسلمانوں نے شروع کی تھی ۔ اس کا اندازہ ہم اس طرح لگا سکتے ہیں کہ 1857ء کے ایک سال میں یہاں پر 24/ہزار مسلمانوں نے وطن عزیز کے لئے اپنی جانوں کو قربان کیا تھا ۔ یومِ جمہوریہ کی مناسبت سے جنگِ آزادی کی قربانیوں کو عام کیا جاتا ہےاور عوام کو مجاہدینِ جنگِ آزادی کی قربانیوں سے روشناس کرایا جاتاہے، نئی نسلوں کے ذہن میں تازہ کرایاجاتاہے، انہوں نے ہمارے لئے یہ قربانیاں اس لئے پیش کیں تاکہ ہم آزاد فضا میں سانس لے سکیں، جب ہمیں آزادی ملی تو جوقانون ملک کے لئے بنایا گیا اس میں ہرمذہب وملت کے لوگوں کو اپنے اپنے مذہب پر چلنے کی آزادی عطا کی گئی، واقعی میں ہندوستان کا قانون اتنا اچھا ہے کہ اس میں کسی مذہب سے ٹکراؤ نہیں ہے. اس میں بتایا گیا ہے کہ یہ ملک مذہب کی بنیاد پر حکومت نہیں کرے گا، اس لئے دستور کی42ویں ترمیم کی رو سے ہندوستان کو ” سیکولر اسٹیٹ” کہا گیا ہے جہاں ہر مذہب کا مساوی طور پر احترام لازمی قرار دے دیا گیا ہے، قانونِ ہند کے مطابق ہر ہندوستانی شہری چاہے وہ کسی بھی مذہب کا ماننے والا کیوں نہ ہو، قانون کی نگاہ میں برابر ہے اور ہر شہری کو آزادیٔ رائے، آزادیٔ خیال اور آزادیٔ مذہب کا حق حاصل ہے۔ دستورِ ہند میں اقلیتوں کو بھی ان کا حق دیا گیا ہے کہ وہ اپنے علیحدہ تعلیمی ادارے قائم کرسکتی ہیں، اپنی تہذیب، تمدن اور زبان کو فروغ دے سکتی ہیں اور اپنے مذہب کی اشاعت کرسکتی ہیں، لیکن افسوس ہوتا ہےکہ برابری حقوق کے باوجود بھی آج مسلمانوں پر ظلم کے ستم ڈھائے جارہے ہیں، کبھی گھر واپسی کے نام پر ،کبھی لوجہاد کے نام پر ،کبھی گائے کے نام پر، کبھی این آر سی کا خوف دلاکر ظلم کیا جارہا ہے، کبھی مساجد کی اذان پر سوال اٹھایاجاتاہے تو کبھی بھارت ماتا کی نعرہ لگانے پر زور دلایاجاتا ،کبھی کچھ شدت پسندتنظیموں کے ذریعہ اپنے مذہبی نعرہ لگوانے پر مسلمانوں پر ظلم کیاجاتا ہے، اس کے باوجود کسی شرپسندوں کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوتی ہے۔ الغرض ان حالات کا مشاہدہ کرنے کے بعد یہ معلوم ہوتاہے کہ مسلم اقلیت کو آئین میں ملنے والے تمام حقوق سے محروم کر نے کی مکمل کوشش زور و شور سے جاری ہے اور حکومت خاموش تماشائی بنی دیکھ رہی ہے۔اس وقت ہرہندوستانی مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ دستور ہند کو جانیں اور دستور ہند سے متعلق جو کتابیں دستیاب ہیں ان کو پڑھنےکی کوشش کریں اور ایسے لوگوں سے نبرد آزما ہوتے ہوئے دستور ہند کی روشنی میں ان کی ظالمانہ کوششوں کو ناکام بنائیں۔ انگریز یہاں سے چلے تو گئے لیکن افسوس اس کے نظریے کو ماننے والے ابھی بھی موجود ہیں جو انگریزوں کے اثرات بد کو قبول کرکے ہندوستان کو مذہب، علاقے، برادری اور غریبی وامیری اور رنگ ونسل کی بنیاد پر تقسیم کرنے میں لگی ہوئی ہیں اور مسلمانوں کے ساتھ مذہب کی بنیاد پر متعصبانہ رویہ کی تحریک چلائی جارہی ہے، اس کے باوجود بھی ہندوستان کا ہر مسلمان یہاں کی اس دم توڑتی ہوئی جمہوریت کا احترام کرتا ہوا نظر آتا ہے. تمام مدارس اسلامیہ میں آج بھی 26جنوری اور 15 اگست کو پرچم لہرانے کی تقریب منعقد کی جاتی ہے اور علامہ اقبال کا لکھا ہوا ترانہ پڑھا جاتا ہے۔”سارے جہاں سے اچھا ہندوستاںہمارا ۔ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا "۔