از قلم: سید عبداللہ علوی بخاری اشرفی
ہندوستانی سیاست کا موجودہ دور ایک نئی تاریخ رقم کر رہا ہے۔اس ملک کی ہزاروں سالہ تاریخ میں ایسا وقت کبھی نہ آیا ہوگا جیسا اس وقت آیا ہے۔بنیادی طور پر ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے لیکن موجودہ حالات یہ ثابت کر رہے کہ اس ملک سے جمہوریت کی خلاف ورزی کہیے کہ یا خاتمے کا آغاز ہوچکا ہے۔آج ہندوستان میں جمہوریت کے اصولوں کو پس پشت ڈال کر جس طرح بر سراقتدار حکومت کی جانب سے جس طور پر فیصلے لیے جارہے ہیں یہ کوئی خوش آئند حالات کا اشارہ نہیں کرتے۔ جمہوری نظام حکومت کے اصولوں کے مطابق دنیا بھر کے وہ ممالک جہاں جمہوری نظام حکومت قایم ہے اُس ملک میں بسنے والے مختلف المذاہب اور مختلف النسل باشندوں کو مساوایانہ حقوق و آزادی حاصل ہونی چاہیے۔ جمہوری ملک کے باشندوں کو رہائشی، کاروباری، تجارتی، ملازمت کی آزادی کے ساتھ مذہبی پہچان، معمولات، تہذیب و تمدن، عبادات و رسومات کی ادائیگی کی مکمل آزادی حاصل ہوتی ہے۔ لیکن جب ہم اپنے ملک کے موجودہ سیاسی منظر نامے پر نگاہ ڈالتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ ہندوستان میں نظام جمہوریت کے ٹانکے ڈھیلے ہوتے نظر آنے لگے ہیں۔ موجودہ ہندوستانی سیاست اسے جس سمت لے جا رہی ہیں جس سے آمریت کی بو آنا شروع ہو گئی ہے۔
ملک میں قریب ایک دہائی سے مذہب اور ذات پات کی لڑائی روز افزوں بڑھتی جارہی ہے۔ مفاد پرست سیاستداں اس ملک کو اور اس کے ہزاروں سالہ تاریخی اقدار و وقار،تہذیب و تمدن کو ملیا میٹ کرنے پر آمادہ نظر آرہے ہیں۔ آئے دن مذہب کے نام پر نفرتوں کی آگ میں جھلستے انسانوں کے واقعات، بربریت کا ننگا ناچ ناچتی وحشیّت و بربریت، جبر و تشدد پر آمادہ قتل و غارت کا پیغام دیتی بیمار ذہنیت، ہندوستانیوں سے انسانیت چھین کر ان میں حیوانیت بھرتی نظر آرہی ہے۔ ملک کے طول و عرض میں مذہب کے نام پر نفرت ودشمنی پھیلانے کے ایسے ہتھکنڈے اپنائے جانے لگے ہیں جن کے ذریعے ملک کے باشندوں سے آپسی اخوت و محبت اور جذبہ رواداری کا خاتمہ کیا جارہا ہے۔ ہمارے ملک کے موجودہ حالات بتا رہے ہیں کہ ملک دہکتے ہوئے آتش فشاں پر کھڑا ہے۔
یہ وہ دور ہے جہاں ہندوستان اپنی تاریخ کے انتہائی نازک ترین مرحلوں سے گزر رہا ہے۔وہیں اس ملک میں بسنے والی ”قوم مسلم“ کے لیے بھی یہ دور اتنا ہی نازک اور پر خطر ہے جتنا کہ ملک کے لیے۔ آج مسلمانوں کے تشخص کو مٹانے کے لیے منظم منصوبے بنائے جارہے ہیں، ان کے دین میں تبدیلی لانے کے لیے خود ساختہ اور اسلام شکن قوانین مرتب کیے جارہے، ان کے خورد و نوش اور تجارت و معاشرت پر پابندیاں عائدکی جا رہی ہیں۔ غور کیجیے:
تین طلاق کا مسئلہ خالص اسلامی مسئلہ ہے اس پر حکم امتناع عائد کرنا کیا جمہوریت کے منافی نہیں؟
حجاب کا مسئلہ خالص اسلامی مسئلہ ہے اس میں مداخلت کرنا کیا جمہوریت کے منافی نہیں؟
ذبیحہ کا مسئلہ خالص اسلامی مسئلہ ہے اس پر حکم امتناع عائد کرنا کیا جمہوریت کے منافی نہیں؟
گوشت کی تجارت اور اس کو غذا میں استعمال کرنے پر قانوناًممانعت عائدکر دینا کیا جمہوری نظام کے منافی نہیں؟
مسلمانوں کی مذہبی درس گاہوں کو دہشت گردی کے مراکز کا الزام دینا کیا جمہوری نظام کے منافی نہیں؟
مسلمانوں کی خدا اور ان کے رسول جناب محمد رسول اللہ ﷺکی شان و عظمت میں نازیبا و غلیظ الفاظ و جملوں کا استعمال کرنا کیا جمہوری نظام کے منافی نہیں؟
مسلمانوں کی مذہبی کتاب قرآن مقدس کی توہین و بے حرمتی کرنا کیا جمہوری نظام کے منافی نہیں؟
مسلمانوں کو گروہی شکل میں اس قدر مارنا پیٹنا کہ ان کی موت واقع ہو جائے کیا جمہوریت کے منافی نہیں؟
مسلمانوں کے مکانوں، دوکانوں بلکہ پوری پوری بستیوں کو قتل وغارت گری کے ذریعے تہس نہس کرنا اور نذر آتش کر دینا کیا جمہوریت کے منافی نہیں؟
مسلمانوں کے قتل عام پر ہم وطن قوم ہندوؤں کو ورغلانا اور آمادہ کرنا کیا جمہوریت کے منافی نہیں؟
مسلمان عورتوں کے ساتھ بد سلوکی کرنا اور ان کی عصمت پر حملے کرنا کیا جمہوری نظام کے منافی نہیں؟
مسلمانوں کی مساجد اور مزارات کو جلانا، انھیں شہید کرنا، ان کی بے حرمتی کرنا کیا جمہوری نظام کے منافی نہیں؟
ہندوستان کی جمہوریت اس وقت خاتمے کے دروازے پر دستک دے رہی ہے۔ ہندوستان اپنے وجود کی تباہی کے دہانے پر پہنچ رہا ہے۔ اس کی ہزار ہا سالہ تاریخ انسانی تاریخ کے نقشے پر آثار قدیمہ کی حیثیت رکھتی ہے ٗ اپنی شناخت کھونے کی دہلیز پر ہے۔ اس وقت مادرِ وطن کو سچے محبان وطن اور وطن پرست جیالوں کی ضرورت ہے جو بلا تفریق مذہب و ملت اس کی آن، بان، شان اور اس کی پہچان کو بچانے کے لیے میدان عمل میں آئیں۔ ہندوستان کی جمہوریت کو تحفظ دینا اور بچانا اس وقت ہر ہندوستانی کاوطنی فریضہ ہے۔مسلمان تو اپنے حصے کی لڑائی لڑ ہی رہے ہیں اس لیے اب ضروری ہو چکا ہے کہ دیگر برادران وطن ملک کی حفاظت کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔وطن عزیز ہندوستان میں غیر متشدد سکھ قوم، جمہوریت پسند حقیقی ہندوبرداران وطن اور غیر متشدد دلت قوم یہ تینوں ہندو سماج کا حصہ ہیں۔ اس وقت ملک کے ان تینوں طبقوں کو اپنے حصے کی وطنی ذمہ داری اد کر تے ہوئے غیر آئینی عناصر سے ملک کو بچانے اور ملک میں جمہوریت کو بحال رکھنے کے لیے میدان عمل اترنے کی ضرورت ہے۔
یہ وہ وقت ہے جس میں مسلمانوں کو اپنی صفحوں میں اتحاد پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے اختلافات نہ ختم ہو سکتے ہیں اور نہ ہی ختم ہوں گے باوجود اس کے ہم اپنے اپنے اختلافات کو باقی رکھتے ہوئے ملی مفادات کی خاطر اور اسلامی اصولوں اور قوانین کے تحفظ کے لیے ہمیں اجتماعی قوت کا استعمال کرنا ہوگا۔آج ہمیں اُن مسائل پر تو اجتماعی اتفاق رائے بنا لینی چاہیے جن میں ہمارا کوئی اختلاف نہیں ہے۔ مجھے یقین ہے ہمارا یہ قدم ہماری شریعت و شعارکی حفاظت کی آدھی طاقت ثابت ہوسکتا ہے۔
ہم اُس وقت بھی ایک نہ ہوئے اورخاموش رہے جب ہماری قوم کی جانیں اور عصمتیں لوٹی گئیں،
سرمایہ تباہ کر دیا گیا، چھتیں چھین لی گئیں، سروں سے باپ کے سایے، بیویوں سے سہاگ کے آنچل اوروالدین سے ان کے بڑھاپے کا سہارا چھین لیا گیا۔
ہم اُس وقت بھی ایک نہ ہوئے اورخاموش رہے جب سڑکوں پر نماز پڑھنے کی مخالفت کی گئی۔ ہم اس وقت بھی ایک نہ ہوئے اور خاموش رہے جب اذان کی آواز پر اعتراض کرتے ہوئے سوال
اٹھائے گئے۔
ہم اس وقت بھی ایک نہ ہوئے اور خاموش رہے جب ہماری مسجدوں اور درسگاہوں کو دہشت گردی کے مراکز کہا گیا۔
ہم اس وقت بھی ایک نہ ہوئے اور خاموش رہے جب ہماری غذا پر پابندی لگائی گئی۔
ہم اس وقت بھی ایک نہ ہوئے اور خاموش رہے جب ہماری تجارتوں کو مسدود و کردیا گیا۔
ہم اس وقت بھی ایک نہ ہوئے جب قوم کی بہن بیٹیوں اور ماوؤں کے سروں سے حجاب کھینچے اور نوچے جا رہے تھے۔
ہم خاموش رہے، اندھے، بہرے، گونگے بنے بیٹھے تماشہ دیکھتے رہے۔
چوں کہ ہم نے اپنا مذہبی فریضہ ادا نہ کیا اس لیے حجاب کا احتجاج عدلیہ کے ایوان سے ناکام لوٹا۔ عدم اعتماد کا فیصلہ آتے ہی سب اخبارات میں بیان بازی کو کیوں کود پڑے؟جب قوم کی بچیاں دو ماہ تک راستوں پر سراپا احتجاج تھیں تب یہ قوم کے قائدین کیوں مہر بہ لب تھے؟ ہم ایک ہو کر قوم کی بہن بیٹیوں کی حجاب کی حفاظت میں کیوں سامنے نہ آئے؟ یہ وہی قوم ہے جس کے ایک جرنیل نے اپنی قوم کی بہن کی پکار پر عہد کر لیا تھا کہہ جب تک اس کی فریاد رسی نہ کر لوں پانی حلق سے نہ اتاروں گا۔ وہ سمندروں کا سینہ چیرتا ہوا آیا اور اپنی قوم کی اس بہن کی فریاد رسی کے بعد پانی کا گھونٹ پی کر اپنے رب کا شکر ادا کیا۔ لیکن آج اس قوم کی غیرت سرنگوں ہو گئی ہے، ان پر دنیا غالب آ گئی ہے، ہمارا شیرازہ بکھر گیا ہے، ہماری شان و سطوت پارہ پارہ ہو گئی ہے مگر ہم ہیں کہ ہوش میں آنے کو تیار نہیں، بیدار ہونے کو تیار نہیں، متحد ہونے کو تار نہیں۔
ہم آج بھی ایک نہیں ہورہے جب ہماری شریعت میں مداخلت کی جارہی ہے۔کیا اب بھی وقت نہ آیا کہ ہم ایک ہوجائیں اور ایک ساتھ آواز بلند کریں؟ آج ہمیں اتحاد کی طاقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔آج ہمیں اجتماعیت کی اہمیت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔جب ہم کسی کو سمجھاتے ہیں تو مٹھی کی طاقت کا احساس کراتے ہیں لیکن آج ہم خود اس مٹھی کی طاقت کو بننے نہیں د ے رہے تو اسے استعمال میں کیا لائیں گے۔
کیا ہماری مٹھی کی انگلیوں میں اختلاف نہیں؟
کیا ہماری مٹھی کی ہر انگلی میں یکساں طاقت ہے؟
کیااس اختلاف کے باوجود ہم اپنی انگلیوں کی طاقت کو مٹھی بنا کربوقت ضرورت یا دشمن کے خلاف
بطور طاقت استعمال نہیں کرتے؟
آج ہماری مٹھیاں ہمیں قدرت کا یہ پیغام سنا رہی ہیں کہ ہم اپنے اختلاف کے ساتھ ضرورت کے
پیش نظرآپس میں اتفاق قائم کریں۔
کیا اسلام میں اس کی مثال رسول اللہ ﷺ کے زمانہ اقدس میں اوس و خزرج کے معاہدے سے نہیں ملتی؟
کیا نبیٔ کریم روؤف و رحیم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کا یہ فرمان عالیشان: ”اختلاف امتی رحمتی“ ہماری نگاہوں کے سامنے نہیں؟
ہمیں اپنے ایمان و عقائد میں کسی سے کوئی اتحادنہیں کرنا ہے۔ ہمیں اتحاد کرنا ہے تو شعار اسلام کے تحفظ کے لیے، ہمیں اتحاد کرنا ہے توقوم و ملت کی بیٹیوں کی عصمت کی حفاظت کے لیے،ہمیں اتحاد کرنا ہے تومعاشرتی تقاضوں کے حصول و تحفظ کے لیے۔آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے مقتدا و پیشوا، علما ء و مشائخین اور مفتیان کرام اس ضمن میں شریعت اسلامیہ کی روشنی میں اس سمت توجہ دیں اور خدا و رسول کے فرامین کی روشنی میں ایک ایسا فیصلہ لیں جس سے ہمیں یہ سارے مقاصد حاصل ہوسکیں جو اس وقت ہمارے سامنے ایک المیہ بنے کھڑے ہیں۔ کیا ہمیں وہ بات یاد نہیں جو اس ملک کے مسلم دشمن فرد نے کچھ عرصہ قبل علی اعلان کہی تھی کہ اب ہم مسلمانوں کے آپسی اختلافات کا فائدہ اٹھائیں گے اور انھیں آپس میں لڑائیں گے۔
میں جاننا چاہتا ہوں کہ ا
گر خدا کی مرضی سے ہمیں کسی ملک کی حکومت میسر آ جاتی ہے تو ہم نظام حکومت کیسے قائم کریں گے؟
کیا پارلیمینٹ میں ہم مشروط و مخصوص رکنیت پر حکومت قائم کر سکتے ہیں؟
کیاہم مشرط و مخصوص ووٹ کی بنا پر حکومت حاصل کر سکتے ہیں؟
کیا ہمارے مذہب میں ان حالات میں حکومت چلانے کی اجازت نہیں؟
کیا ہمارا مذہب ان حالات میں ہمیں مظلومیت اور محکومیت کا حکم دیتا ہے؟