سچائی یہ ہے کہ: ہندوستانی سیاست میں بریلوی دیوبندی نہیں چلتا، صرف ہندو مسلمان چلتا ہے!
اگر کوئی مسلم نام والا سیاسی آدمی خلوص سے ہمارے مسائل پر لڑتا اور قربانی دیتا ہے تو وہ ہمارا سیاسی قائد بننے کا اہل ہونا چاہیے، ورنہ اپنے پیروں سے کہیں کہ جس طرح مذہبی قیادت میں جھنڈے گاڑ رہے ہیں اسی طرح سیاسی قیادت بھی کریں!
کبھی آپ اویسی صاحب کا مسلک کھوجنے نکل پڑتے ہو تو کبھی امتیاز جلیل صاحب کا کا تو کبھی غلام رسول بلیاوی صاحب کا تو کبھی کسی کا۔
سوال یہ ہے کہ اگر آپ کو اپنا خالص ہم مسلک سیاسی قائد چاہیے تو پھر اپنے علماء اپنے پیروں سے کہیں کہ سیاست میں آئیں، مگر وہ نہیں آئیں گے اور اگر آنا چاہیں تو آپ آنے نہیں دیں گے! کیوں کہ انہیں پتہ ہے کہ وہ جیسے ہی سیاست میں آئیں گے آپ پہلے تو انہیں بی ٹیم، بکا ہوا نہ جانے کیا کیا کہہ کر مسلک سے خارج کریں گے پھر طرح طرح کی فوٹو وائرل کریں گے اِس کے ساتھ بیٹھا، اُس کے ساتھ ہاتھ ملایا، اس کے گھر گیا وغیرہ وغیرہ جبکہ سیاست میں کئی بار یہ سب ناگریز ہوتا ہے۔
میرا ماننا ہے کہ مسلک اپنی جگہ ہے اور سیاست اپنی جگہ، آپ اپنے چار لاکھ والے پیر صاحب کی بیعت توڑ کر اویسی یا بلیاوی کی بیعت کرنے نہیں جارہے بلکہ صرف اپنی آواز ایوانوں تک پہچانے والا ایک نڈر بے خوف دور اندیش قاصد چننے جارہے ہیں، اپنی لڑائی لڑنے والا ایک کمانڈر چن رہے ہیں۔ اس میں مسلک مسلک کھیلنے کی تو کوئی ضرورت میرے خیال سے نہیں ہونی چاہیے۔
اگر ایسا ہے تو پھر سالوں سے پیٹ بیٹ بھر بھر کر جن نیتاؤں کو ووٹ کررہے ہیں ان کا تو مذہب بھی کبھی نہیں دیکھا چہ جائے کہ مسلک!
ہم اپنے آباواجداد کے مسلک پر قائم ہیں اور دینی امور میں تاحیات اسی پر رہیں گے کیونکہ وہ میرے ایمان کا لازمی جزو ہے مگر سیاست ہمارے وجود کی بقاکے لیے لازمی جزو ہے اس لیے وہاں مسلک اہلیت نہیں ہونی چاہیے بلکہ بنام مسلم سیاسی لیاقت بے باکی، دور اندیشی اور بے خوفی معیار ٹھہرنا چاہیے۔
نوٹ: اس تحریر کا ہرگز مطلب نہیں کہ میں ممبئی کی ریلی کی وجہ سے مجلس اتحاد المسلمین کے رہنما بیرسٹر اسدالدین اویسی صاحب کو آنکھ بند کرکے اپنا قائد مان لینے کی وکالت کررہا ہوں بلکہ مقصد یہ ہے کہ اویسی، امتیاز اور بلیاوی صاحبان جیسے بے خوف لیڈران کا ہاتھ مضبوط کرنا چاہیے اگر وہ درست خطوط پر سیاست کررہے ہیں۔
اور ان جیسے اور لیڈران پیدا کرنا چاہیے۔ کیونکہ غیر غیر ہی ہوتا ہے وہ کبھی آپ کے مذہبی معاملات میں آپ کا مخلص نہیں ہوگا، یہ طے شدہ ہے!
ازقلم: احمد رضا صابری
24.09.2024