ممتاز عالم رضوی
ادارہ شرعیہ سلطان گنج، پٹنہ بہار
رابطہ نمبر: 9350365055
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ انسانی سماج اپنی تشکیل و تعمیر کے مختلف مراحل سے گزرچکاہے مگر معاشرہ خواہ کوئی رہا ہو کمزور افراد ہمیشہ طاقتوروں کے زیر نگیں رہے ہیں روئے زمین پر بہت کم ایسے حکمراں ہو ئے جنہوں نے عملی طور پر خود کو کمزوروں کا محسن اور ان کے حقوق کے محافظ کی حیثیت سے اپنا فریضہ انجام دیا ہو۔قبائلی نظام میں بھی کمزور کسمپرسی کا شکار رہے ہیں،عہد بادشاہت میں بھی ارباب اقتدار نے ان حقوق کی پامالی کے کیسے کیسے گل کھلائے اس سے تاریخ کا طالب علم خوب واقف ہے انہوں نے نہ صرف انسانوں کو اپنا محکوم بنا یا بلکہ بہت سے فر ما نرواں خود کو اپنی رعایا کا معبود ہو نے کے دعویدار بھی بن گئے ۔شہنشایہت و راج تنتر کا ایک طویل اور تلخ تجربہ انسانی سماج رکھتا ہے اور اب بھی دنیا کے بہت سے خطوں میں قدرے تبدیلی کے ساتھ بادشاہت و راج تنتر قائم ہے امید کی جاتی ہے کہ دھیرے دھیرے پوری دنیا جمہوریت کے رنگ میں رنگ جائے یا اندیشہ ہے کہ بہت سے خطوں میں جمہوریت کا گلا گھونٹ کر پھر سے آمریت و شہنشاہیت کو بزور قوت بحال کر دیا جائے
جن ممالک نے اپنی تہذیب وثقافت کی وسعت کو ملحوظ نظر رکھتے ہو ئے جمہوریت کو گلے لگا یا ان میں ہمارا پیارا ملک بھارت بھی ہے جس نے حکمرانی و فرمانروائی کے بہت سے نشیب و فراز دیکھا ہے اس ملک کی خوبصورتی یہ ہے کہ اس کے دامن میں مختلف مذاہب ،مختلف تہذیب اور مختلف زبان کے بو لنے والے صدیوں سے رہتے بستے آرہے ہیں اس ملک کے لئے جمہوریت ہی سب سے مناسب راستہ تھا جسے اپنا یا گیا ۔جمہوریت کی بحالی سے پہلے یہاں انگریزوں کا سامراج قائم تھا اور ملک غلامی کی زنجیر میں جکڑا ہو اتھا اس غلامی کی جوا کو اتارپھینکنے میں بلا تفریق مذہب و ملت مجاہدین آزادی نے اپنی قربانیاں پیش کیں اور مشترکہ جد و جہد کا مظاہرہ کیا
آزادی کے بعد ملک کے رہنماووں نے مل بیٹھ کر اس کے بہتر مستقبل اور جملہ عوام کے حقوق کی محافظت کے لئے دستوری جمہوریت کا راستہ اختیار کیا ہر خطہ میں دھرم و مذہب کے مختلف رنگ وروپ کے باوجود کسی دھرم کو ملکی و مرکزی حیثیت نہیں دی گئی اور نہ ہی کسی مذہب کے فروغ و استحکام کی راہ کو مسدود کیا گیا ہر شخص کے بنیادی حقوق میں اپنے اپنے مذہب کے مطابق گھر سے بازار تک اور سڑک سے سنسد تک زندگی گزارنے کا اختیار دیا گیا واقعی آئین کی یہ وسعت ان مذاہب کے لئے جو عملی طور پر انسانوں کے لئے دنیا اور دنیا کے بعد کی زندگی کی رہنمائی کر تا ہو بڑا مفید اور ایک اچھا موقع فراہم کر تی ہے مگر اس وقت بھی کچھ ایسی تحریکیں اور افراد تھے جنہیں یہ بات ناگوار گزری اور اس نئے ڈھانچہ کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا مگر ملک کے اکثر اور قد آور رہنماووں نے جمہوریت کی راہ کو ترجیح دیا اور ہر بھارتی کے حقوق کی وکالت کیا خون خرابے کو ناپسند کیا اور امن وامان کی زندگی اور ملک کی سالمیت کا راستہ جمہوریت کو قرار دیا جن لوگوں نے انگریزوں سے لو ہا نہیں لیا تھا بھلا اسے ملک کی سالمیت و سکون سے کیا سروکار ؟وہ تو چاہتے ہیں کہ ہماری برتری قائم رہے خواہ ملک آگ وخون کے حوالے ہو جائے ۔ملک کی بدقسمتی یہ رہی کہ یہ پوری دنیا میں اس خصوصیت سے پہچانا گیا کہ یہاں مختلف مذاہب کے لوگ مل جل کر زندگی گذارتے ہیں یہ مختلف تہذیب وتمدن کا گہوارہ ہے مگر عملی طور یہ بھارت کے کچھ پوت اپنی مادر وطن کی اس انفرادی خصوصیت کو برقرار رکھنے کے لئے مکمل طور پر دوسرے مذاہب کے ساتھ رواداری نہ رکھ سکے ،جس کے نتیجے میں ارباب سیاست نے سمجھ لیا کہ ہندوستان کو جیتنے کے لئے سب سے آسان اور سستا راستہ یہ ہے کہ انہیں ایک دوسرے سے لڑا دیا جائے اقلیت کو اکثریت سے ،فارورڈ کو بیک ورڈ سے اس میں وہ پورے طور سے کامیاب رہے اور ہندوستانی عوام نہ صرف اپنے حقوق سے بلکہ اپنی اہمیت سے بھی بے خبر ہو گئی
یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ جس ملک کا جمہوری آئین اپنی ابتدا میں ہی اقتدار کا سر چشمہ عوام کو قرار دیتا ہے پھر اس کے بعد ہی ارباب کے اقتدار کے اختیارات کی وضاحت کر تا ہے اسی ملک کے لوگ حکمرانوں کے سامنے اپنی آواز تک بلند کر نے کی صلاحیت نہیں رکھتے اور نہ وہ وہ اپنی بات منوانے کی پوزیشن میں رہتے ہیں حالانکہ آئین تو یہ کہتا ہے کہ کوئی خواہ کوئی کسی منصب پر ہو سب بعد میں ہیں تم پہلے ہو
در حقیقت اپنی اہمیت اور ذمہ داری سے غافل مخدوم کو ایک نہ ایک دن خادم کو ہی اپنا مخدوم ماننا پڑ تا ہے اور بھارت کے لوگوں کی بھی حالت یہی ہے اسی وجہ سے جمہوریت کی حقیقی بہار سے عوام نا آشنا ہے ۔بھارت کی جمہوریت کو اس حالت مرگ میں لانے میں جہاں فسطائی طاقتوں کا عمل دخل ہے وہیں اس کے چولے ہلانے میں بھارت کے لوگوں کا کر دار بھی کسی دشمن جاں سے کم نہیں ہے دراصل یہی لوگ چند سکوں کے لئے اپنے ووٹ اور وقار کا سودا کر تے ہیںاور پھر دو کلو گیہوں اور تین کلو چاول باٹنے والا ہمیں اپنا محسن نظر آتا ہے مگر ہم بھول جاتے ہیں کہ جو کچھ دیا جا رہا ہے وہ نہ خیرات ہے اور نہ احسان بلکہ کہیں اس سے زیادہ ملک کے وسائل پر ہمارا حق ہے۔ احسان یہ نہیں ہے اس نے ہمیں چند سہولتیں دی احسان یہ ہے کہ ہم نے اے صاحب اقتدار بنا دیا
ادھر چند سالوں سے ہما را ملک احتجاج و مظاہرہ کا ملک ہو گیا ہے اور وہ دن دور نہیں ہے جب سب سے زیادہ احتجاج و مظاہرہ کا سہرا ہمارے بھارت کے سر بندھ جا ئے ۔ہزار احتجاج کے باوجود ارباب اقتدار کے کانوں پہ جو اس لئے نہیں رینگتے کہ وہ جانتے ہیں بھارت کے لوگوں کا یہ شعور مردہ ہو چکا ہے کہ وہ اقتدار کا سر چشمہ بلکہ ارباب اقتدار سے جو بھیک مل جا ئے اسی کو غنیمت سمجھتے ہی
ں
عو
ام کو اقتدار کا سر چشمہ اس لئے بنا یا گیا تھا تاکہ ملک کے تمام وسائل و آمدنی سے اسے فائدہ مل سکے ان کی تعلیم ،ان کی صحت ،ان کے کلچر اور صلاحیتوں کے مطابق روزگار کے مواقع میسر آ سکے مگر وہ تمام باتیں جو بقائے حیات،بقائے نسل ،بقائے تہذیب و زبان سے وابستہ ہیں پس پشت چلی گئیں اور جن امور سے الگ تھلگ رہنا ہی بھارت کے اقتدار کی ذمہ داری تھی عوام و حکمراں اسی کی گتھیاں سلجھانے میں مصروف ہو گئے آئین نے عوام بالخصوص ارباب اقتدار کو مذہبی معاملات سے خود کو الگ تھلگ رکھنے کی تلقین کیا ہے مگر اسے جمہوریت کا ماتم ہی کہا جا سکتا ہے کہ اب اقتدار کا محور معاملات نہیں مذاہب ہیں
عالم یہ ہے کہ ملک کی دستوری ڈھانچہ کی حفاظت کی قسم کھانے والا انتہائی ذاتی معاملہ مذہب کو خطرے میں بتا تا ہے اور ملک کی اکثریت اس کے پیچھے چل پڑتی ہے اور پھر اسی نشے میں مدہوش رکھ کر معلوم نہیں ان کے کن کن حقوق پہ ڈاکے ڈالتا ہے مگر مدہوشی کی شدت اس قدر زیادہ ہے کہ نہ کوئی جاگنے والا ہے اور نہ کوئی جگانے والا ۔جب کبھی جاگیں گے تو شاید ان کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں بچے گا اس لئے کہ ہم جس چیز کی حفاظت ارباب حکومت سے چاہتے ہیں اسے ہمارے علاوہ کو ئی نہیں بچا سکتا اور جن امور کی حفاظت اقتدار سے ہو سکتی ہے اس کی ہمیں کو ئی پرواہ ہی نہیں ۔جمہوری ملک کی عوام جب جمہوری قدروں کے تحفظ کے بجائے آپسی عداوت و انتقام کے جذبے سے کسی کو اقتدار سونپتی ہے تو ایک نہ ایک دن وہ بھی بنیادی حقوق سے محروم کر دی جاتی ہے
بدل کر دیکھ لیں تاکہ بدلنے والے کو بھی سکون مل جائے،. جو ہونا ہے وہ اللہ کے علم میں ہے،