تحریر: اے رضویہ ممبئی
جامعہ نظامیہ صالحات کرلا
صرف ممبئی ہی نہیں بلکہ ہندوستان کے نامور صوفی بزرگ اھل سنت کے دلوں کی دھڑکن دلوں پر راج کرنے والے سب کے پیارے حضرت بابا شیخ مخدوم علی مہائمی یا علی بن احمد المہائمی نام سے مشہور ہیں, سمندر کے ساحل پر پہرہ دیئے ہوئے ہیں, جنکی چوکھٹ سے نہ جانے کتنے ہی ٹوٹے دل فیض پاتے ہیں. ممبئی کے رہنے والے مسلمان آپ کا عرس مبارک بہت شان سے مناتے ہیں۔ اور ممبئی کے علاوہ کے بھی معتقدین آپ کی مزار پاک سے فیض حاصل کرنے حاضر ہوتے ہیں۔
آپ کے والد محترم کوکن کے دولت مند تاجروں میں سے تھے جبکہ والدہ کا نام فاطمہ بنت ناخدا حسین انکولیا تھا جو متمول خاندان سے تعلق رکھتی تھیں اور اُن کے والد (یعنی مخدوم مہائمی کے نانا) ملک التجار کہلاتے تھے۔ مخدوم مہائمی کا خاندان نوائط کہلاتا ہے۔ قبیلہ نوائط کے کچھ تاجر مدینہ منورہ سے آکر خطہ کوکن (ممبئی) میں آباد ہو گئے تھے، اِنہی میں آپ کے مورثِ اعلیٰ بھی تھے۔ فقہ میں مجتہدانہ بصیرت کی بنا پر فقیہ اور مرجع خلائق ہونے کی بنا پر مخدوم کے القاب سے یاد کیے جاتے ہیں۔
آپ کی پیدائش: آپ کی ولادت ۱۰؍ محرم الحرام ۷۷۸ھ/۱۳۷۲ء آٹھویں صدی ہجری میں مہائم میں ہوئی۔ آپ کا اسم علاؤالدین و علی ہے۔ کنیت ابوالحسن؛ لقب زین الدین ہے۔
تعلیم و تربیت:
مخدوم مہائمی کے والد مولانا شیخ احمد بہت بڑے عالم و فاضل اور متقی پرہیزگار تھے۔ چنانچہ اُنہوں نے اپنے بیٹے کی ذہانت اور علم کے شوق کو دیکھتے ہوئے اعلیٰ تعلیم کی طرف توجہ کی۔ چونکہ خود بھی عربی زبان کے عالم تھے، اِسی لیے اپنے بیٹے کو بھی عالم بنایا۔ مولانا شیخ احمد بن علی کی زیر تربیت کمسنی میں ہی تجوید قرآن، فقہ، حدیث، تفسیر، فلسفہ اور منطق سمیت دیگر معقولات و منقولات میں درس مکمل کرلیے۔
ایک مشہور روایت کے مطابق حضرت خضر نے بھی آپ کی تربیت میں بڑا حصہ لیا،
مخدوم علی مہائمی آٹھویں صدی میں ہندوستان میں فقہ شافعی سے استدلال کرنے والے پہلے جید عالم، محقق تھے۔ فتاویٰ بھی اِن کی وجہ شہرت ہیں۔ اس کے علاوہ کثیرالتصانیف تھے جن میں سے اکیس کے قریب تصانیف ہنوز باقی ہیں۔
المعتمد قلمی مخطوطہ تقریباً 748 صفحات پر ایک جلد دو حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلا حصہ 236 صفحات پر ’کتاب الطہارت‘ سے ’کتاب الفرائض‘ تک ہے۔ جب کہ دوسرا حصہ 237 سے 503 صفحات پر ’کتاب الفرائض‘ کی چند فصول سے ’کتاب العتق‘ تک ہے۔‘‘ (فقہ مہائمی،ص۱۳)
آپ زاہد، عابد، جامع العلوم شریعت و طریقت، صاحب تصرفاتِ ظاہری و باطنی تھے۔ مخدوم مہائمی کی عبادت و ریاضت کے علاوہ ذوقی شاہ صاحب نے لکھا ہے کہ:’’آپ نے ایک عرصے تک خلوت اور گمنامی کی زِندگی کو پسند کیا۔ لیکن آپ کے علم و فضل اور آپ کے کمالاتِ ظاہری اور باطنی اور کرامات و خوارق جو آپ سے ظہور پزیر ہوئے، اُنہوں نے ایک عالم کو آپ کا گرویدہ کر لیا۔مولانا محمد باقر آگاہ نے اپنی کتاب نفحۃ العنبریہ میں آپ کے اوصاف کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’آپ علوم عقلیہ و نقلیہ میں اِنتہا کو پہنچے ہوئے اور توحید وجودی و علومِ طریقت کے اعلیٰ یادگار اور استغراق و مشاہدۂ ذات میں کامل الحیار اور ملاحظہ صفات سے کنارہ کش تھے۔ آپ سے بہت کرامات اور عمدہ اوصاف اور پسندیدہ خصلتیں اور بزرگ صفتیں ظاہر ہوئیں ہیں۔ آپ کے دستِ مبارک کا لکھا ہوا قرآن مقدس کا نسخہ ۲۹؍ ویں شب رمضان المبارک میں زیارت کروایا جاتا ہے۔
آپ کا وصال بروز جمعہ بوقتِ شب ٧ جمادی الآخر۸۳۵ھ/۱۴۳۱ھ میں ہوا۔ مہائم شریف میں آپ کی تدفین ہوئی۔
یہی وہ لوگ ہیں جنکے راستوں پر چلنے کا حکم قرآن میں رب تعالی ارشاد فرما رہا ہے اور جن پر اللّٰہ تعالٰی نے انعام فرمایا ہے۔
اللہ رب العزت ہمیں اپنے ان پیاروں کے راستوں پر اور انکے تقویٰ و حسن اخلاق کے پر چلنے کی توفیق عطا فرماۓ۔ آمین۔۔۔!!!