از قلم :محمد ساجد رضاقادری رضوی
بانی :تحریک فیضان لوح وقلم جگناتھ پور پوسٹ سنکولہ وایابارسوئی ضلع کٹیہار
ورکن :انجمن اشاعت الشریعہ قاضی ٹولہ چوک آبادپور بارسوئی
امام وخطیب جامع مسجد کاٹے پلی،پٹلم بانسواڑہ ضلع کاماریڈی تلنگانہ
یہ بات نہ ڈھکی ہے اور نہ چھپی ہے،کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت انتہائی نازک ترین اور قابل رحم ہے،معاشی اعتبار سےہویاتعلیمی اور سیاسی لحاظ سے،کسی بھی میدان کامرد نہیں ہے،اورنہ ان کاکوئی ملی قائد ہے،اورنہ سیاسی لیڈر،جو انہیں ایک پلیٹ فارم پر متحد رکھ سکے،ہرشخص خودمختارہے،اور اسی میں سب خوش وخرم ہے،اگرچہ حقیقت اس کے برخلاف ہے،اس شخصی خودمختاری کے پردے میں باپ بیٹے سے الگ ہوگئے،آپس ہی میں خونریزیاں ومقاتلہ اندوزیوں میں مشغول ہوگئے،اورمجموعی طور پر ان کی سیاسی حالت میدان کے اس پھٹبال سے جدانہیں ہے،جو ہرشخص کی لات کھارہاہو۔
جب شوئی قسمت سے ملک بٹوارہ ہواتواس کاٹھیکرابھی مسلمانوں کے سرپھوڑاگیا،بلکہ آج بھی پھوڑاجاتاہے،جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے،لالہ لاجپت رائے اس بٹوارے کی بیج بولے والے پہلاشخص تھے،لیکن جب ملک بٹ ہی گیا،تو جوجانے والے تھے،وہ چلے گئے،اور جورہ گئے انہوں نےمادروطن کوچھوڑناگوارہ نہیں کیا،اب ان کی سیاسی حالت کیاہونی تھی،ان کی قیادت کامسئلہ سامنے آیا،توگاندھی جی نے یہاں رہنے والے مسلمانوں کی تقدیر کانگریس کے ساتھ جوڑ دی،اب ان کی موت وحیات کے ذمہ دار یہی پارٹی قرار پائی،یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کاایک طبقہ ہمیشہ سے گاندھی کی جئے پکارتے رہے،اور اس کی پارٹی کانگریس کے انتہائی بے لوث وفاداراوربے دام غلام بنےہوئے رہے،اورآج بھی ہیں،جس سے باہر نکلنے کے بارے میں وہ سوچ ہی نہیں سکتے،ان کی آزادئ حس محو،سوچنے کی قوت ماؤف،اورغیرت وحمیت ایمانی واسلامی مفقود ہوچکی ہے۔
مسلمانوں کایہ طبقہ کانگریس کے ہاتھوںاپنے اسلام وایمان کو اس طرح گروی رکھ دیا ہے،کہ آج بھی گاندھی کی مخالفت کواپنی مخالفت، اور کانگریس کے بالمقابل کھڑے ہوکر مسلمانوں کی قیادت کی بات کرنے والاشخص ان کی نگاہوں میں نہ صرف کانگریس کادشمن ہے،بلکہ کانگریس کی بھکتی میں اس قدر بصیرت وبصارت سے محروم ہوچکے ہیں،کہ ان کے نزدیک کانگریس اوراسلام کافرق ہی مٹ چکاہے، وہ مسلمان جو اپنی الگ ایک قیادت چاہتے ہیں،انہیں اسلام اور مسلمانوں کا کھلادشمن سمجھتے ہیں ۔
یہ میں یوں ہی ہوا میں نہیں اڑا رہاہوں بلکہ حالیہ دنوں میں ہفت روزہ نئی دنیا دہلی سے ایک مختصر مضمون نظرسے گزرا جسے پڑھ کر نہ صرف افسوس ہوا ،بلکہ مضمون نگار کی دماغی جنون ،فکری دیوالیہ پن اور کانگریس کی اندھ بھکتی پر ماتم کرنے کو جی چاہتاہے،یقین نہ آئے تو آپ بھی ملاحظہ فرماکر سرپیٹ لیجئے۔
،،نئی دنیا کو معلوم ہوناچاہئے کہ اویسی اسلام اور مسلمانوں کادوست نہیں ،بلکہ دشمن ہے،اس نے مہاراشٹر میں قدم رکھ کراگرچہ دوسیٹیں جیتی ہیں،مگر ایک درجن سے زیادہ سیٹوں پربی جے پی اور شیوسینا کی جیت کاسبب بنا ہے،اگراویسی اور پرکاش امبیڈکر کی پارٹیاں میدان میں نہ ہوتیں ،تو کانگریس اور این سی پی کوزیادہ سیٹیں ملتیں ۔اس نقصان کو نظراندازکرتے ہوئے نئی دنیا نے اویسی کی پیٹھ تھپتھپادی ہے،جب کہ نئی دنیا کو اس کے خلاف مضمون لکھنا چاہئے تھا،اوربتانا چاہئے کہ وہ کس طرح سے مسلمانوں کو نقصان پہنچارہاہے،،۔
دیکھا آپ نے کانگریس کی ہار کونہ صرف اپنی ہارقرار دیا،بلکہ ظالم نے کانگریس کی ہار کو اسلام اور مسلمانوں کانقصان قرار دیا،گویاکہ کانگریسیت ،،عین اسلام ،،ہے،جس کی فتح سے بتان ہند مسمارہوکرزمین بوس ہوگئی ہو،اور ان کی شکست سے اسلام کے قلعے ڈھ گئے ہوں۔جی ہاں یہی وہ بتان ہند کے پاسبان تھے،جس نے بابری مسجد میں بتوں کو داخل کرکے اسلام اور مسلمانوں کی نگہبانی کی تھی،ہاں یہ وہی کانگریس ہے جس نے ہاشم پورہ بھاگلپورمظفرنگراور میرٹھ میں مسلمانوں کاقتل عام کرواکے اسلام کوسربلند کیاتھا?.
اس مقام پر عرض یہ ہے کہ کیا بھارت کامسلمان کانگریس کو جتانے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے،یابی جے پی کو ہرانے کاذمہ لے لیاہے،یہی وجہ ہے کہ جب کانگریس اپنی آخری سانسیں گن رہی ہے،تو ہندوستان کامسلمان پاؤں کاپھٹبال بن گیا ہے، بی جے پی کے مقابلے میں سپاوالے شکست کھالے تو ذمہ دار کون ہے؟ مسلمان ! بی جے پی کے مقابلے میں بسپاوالے ہار جائے تو ذمہ کون ہے؟ مسلمان!غرض کہ ساری پارٹیاں بی جے پی کے نام سے ڈرا کر مسلمانوں سے ووٹ حاصل کررہی ہے،اور جب شکست کھاجائے تو ذمہ دار مسلمان ہے۔یو ں ان کی حیثیت اس لات خور پھٹبال سے جدا نہیں ہے۔
یوپی کی رزلٹ نے اس بات کو صاف کردیا کہ مسلم قیادت کی ڈر نے ہندوؤں کو متحدکردیا،اورباردیگربی جے پی کی سرکارکھڑی کردی،لیکن خودمسلمان اپنی قیادت کوترک کرکے بی جے پی کوہرانے کے نام پر سپا،بسپا اورکانگریس،غرض ملک کی تمام پارٹیوںکو ووٹ دیکر حب الوطنی نبھائی،جس سے یہ سمجھ میں آیاکہ خود مسلمانوں کواپنی قوم پر بھروسہ نہیں ہے ،جتنی کہ غیرمسلموں پر ہے۔
اگریوں ہی چلتارہاتو مسلمان ابھی جس پستی وناکامی کی کھائی میں اوندھے منہ گرے ہوئے ہیں ،اس سے نکلنا ناممکنات میں سے ہے،اور یہ تب ہی ممکن ہے جب اپنی قیادت خودکھڑی کرے گا،مگر یہ ہوتاہوانظر نہیں آتا۔
کچھ لال بجھکڑوں کا کہناہے کہ جب یہ تمام پارٹیاں مسلمانوں کوٹکٹ دے رہی ہیں،اوراس سے نیتابن کر پارلیامنٹ میں پہنچ رہے ہیں،توپھر خود کی قیادت کھڑی کرنافضول ہے۔
ان لال بجھکڑوں سے گزارش ہے کہ اب تک تم نے کیادیکھا،جب خود مسلموں اور ان کے دینی معاملات سے متعلق قوانین بنائے جارہے تھے،اسلام وشریعت میں دست درازیاں کی جارہی تھی،مسلم بہوبیٹیوں کے سروں سے دوپٹہ کھینچا جارہاتھا،توپھر ان مسلم نیتاؤں میں سے کتنے ہیں جنہیں آپ نے کانگریس ،بسپا،سپاوغیرہ کے ذریعہ پارلیامنٹ میں پہنچایاتھا،کیاکسی نے بھی اسلام کی تائید وحمایت میں جانے دیجئے،مسلموں کی خیرخواہی میں چند جملے بھی زبان سے نکالے،نہیں! بلکہ سب کے منہ میں دہی جماہواتھا۔
اور یہ نکتہ بھی یادرکھنے کے قابل ہے کہ ایسے مسلم نیتا ہزاروں کی تعداد میں پارلیامنٹ پہنچ جائے،توبھی اسلام اورمسلمانوں کی تائید وحمایت میں منہ نہیں کھول سکتے،کیونکہ ان کے منہ میں پارٹی کی مقاصد اور اس کے افادات کاتالالگاہوا ہوتاہے،منہ کھولے گابھی توپارٹی ہی کے فائدے کے لئے،ورنہ منہ بند۔
یہی وجہ ہے کہ 70 برس تک مسلمانوں کے ملکی اختیارات کورفتہ رفتہ چھینتے آرہے ہیں،اور ان کی حالت بایں جارسید کہ اپنی اختیارات تو کجا اب اپنا وجود بھی بچانے کے لئے ہاتھ پاؤں ہوامیں ماررہے ہیں،مگر تجربہ شاہد ہے کہ سب لاحاصل رہاہے،اور اپنی قیادت کے کیاکیافائدے ہیں یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ آزادی سےاپنے ملکی وملی حقوق کی گفتگوبرسراعلان کرے گی۔