نتیجۂ فکر: محمد زاہد رضا بنارسی
پھر دیش کو سرسبز بنا کیوں نہیں دیتے
تم اس کولہو مرا پلا کیوں نہیں دیتے
تم اس طرح نفرت کو مٹا کیوں نہیں دیتے
اک پیڑ محبت کا لگا کیوں نہیں دیتے
بھارت کے مہاراجہ کا اجمیر ہے مسکن
یہ بات زمانے کو بتا کیوں نہیں دیتے
جس شہر میں یہ لال قلعہ تاج محل ہے
اس شہر کی گلیوں میں گھما کیوں نہیں دیتے
شک جن کو ہو بھارت کے حسیں ہونے پہ ان کو
تم وادی کشمیر دکھا کیوں نہیں دیتے
یہ اپنا وطن اپنا وطن اپنا وطن ہے
جاں اس کے لیے اپنی لٹا کیوں نہیں دیتے
جو آنکھ دکھاتا ہے مرے پیارے وطن کو
اس شخص کی ہستی کومٹا کیوں نہیں دیتے
ہیں برق و شرر دیش میں موجود ہمارے
دشمن کو یہ آئینہ دکھا کیوں نہیں دیتے
مل جل کے سبھی ساتھ رہیں دیش میں "زاہد”
یہ نغمہ محبت کا سنا کیوں نہیں دیتے