نتیجۂ فکر: نیاز جے راج پوری، اعظم گڑھ
فِکرِ سالِ گُزشتہ کِسی کو نہیں، آمدِ سالِ نَو کی خوشی ہر طرف
شور ہے ہر طرف سالِ نَو آ گیا، مچ گئی جیسے اِک دُھوم سی ہر طرف
سال گُزرا ہُوا یُوں ہی آیا تھا جب، ایسا ہی شور تھا، ایسا ہی جشن تھا
چھوڑ کر جو گیا ہے نِشاں ہر طرف، چھاؤں سی ہر طرف، دُھوپ سی ہر طرف
دیپ لب پہ تبسُّم کے روشن ہُوئے، گیت خوشیوں کے گُونجے فضا میں مگر
ذہن میں بُغض و نفرت کی آندھی وہی اور دِل میں وہی تیرگی ہر طرف
صِرف بدلے کلینڈر مگر ہم نہیں، اپنی حالات کل جیسے ہیں آج بھی
مسئلے، اُلجھنیں، رنج و غم، آفتیں، مُشکلیں آج بھی ہیں وہی ہر طرف
دھرم کے نام، پر ذات کے نام پر، دِل سے دِل کے یہ بڑھتے ہُوئے فاصلے
رام کے بھکت بندے خُدا کے یہاں کرتے آپس میں رسّہ کشی ہر طرف
قتل و غارت گری، بلوے دنگے، فسادات کی آگ میں جُھلسی ہر زِندگی
آج بھی آنکھوں میں چُبھتی ہیں خار سی، سُرخیاں کل کے اخبار کی ہر طرف
خوف و دہشت کے بادل ہیں چھائے ہُوئے جانے کب،کِس طرف یہ برسنے لگیں
کِتنے حِصّوں سے گُلشن کے رُوٹھی ہُوئی رہتی ہے فصلِ گُل آج بھی ہر طرف
ایکتا ، دوستی، پیار، اخلاص کے نعرے کل بھی سُنے، سُنتے ہیں آج بھی
حیف! صد حیف!! اِن میں سے ہر ایک کی آج تک رہ گئی ہے کمی ہر طرف
رہبروں کا جو کِردار کل تھا وہی آج بھی مِلتا ہے دیکھنے کو یہاں
قُفل و درباں کی باتیں بھی کرتے یہی اور کرتے یہی رہزنی ہر طرف
اِک پُرانی کہانی کو عُنواں نیا کوئی دے دینے سے بات بنتی نہیں
بات تو جب ہے ایسی ہوں تبدیلیاں، بات بَن جائے بِگڑی جو تھی ہر طرف
منزلوں کے لئے راستے شرط ہیں، اِس حقیقت سے اِنکار مُمکن نہیں
آگے بڑھنے کا بھی حوصلہ چاہئے، کوہ، صحرا ہو یا کہ ندی ہر طرف
اے نیازؔ اپنی اِس سالِ نَو کی غزل کو قصیدہ کہوں یا کہوں مرثِیہ
اِس کے اشعار میں رقص کرتے ہُوئے ہیں خوشی اور غم دونوں ہی ہر طرف