عمر بھر دھوپ کی بارش میں نہایا ہوگا
تب کہیں جا کے کوئی پھول کھلایا ہوگا
آج کیا خوب ہوئی رزق میں میرے برکت
آج مہمان کوئی گھر میرے آیا ہوگا
سچ بتا جن سے تو کرتا تھا وفا کی امید
وقت پڑنے پہ کوئی کام نہ آیا ہوگا
ناز بچوں کے اُٹھاتے ہوئے محسوس کیا
کس طرح باپ نے کردار نبھایا ہوگا
تیرے حصہ میں جو آئی ہے یہ غم کی دولت
تو نے ارمانوں کو سولی پہ چڑھایا ہوگا
جس کی کمزوری بھلا اور کوئی کیا جانے
اس کو تو اپنے ہی لوگوں نے ستایا ہوگا
یا تو اس نے یہ غزل خود سے کہی ہے روشن
یا تو اشعار کہیں اور سے لایا ہوگا
افروز روشن کچھوچھوی