غزل

غزل: عمر بھر دھوپ کی بارش میں نہایا ہوگا

عمر بھر دھوپ کی بارش میں نہایا ہوگا
تب کہیں جا کے کوئی پھول کھلایا ہوگا

آج کیا خوب ہوئی رزق میں میرے برکت
آج مہمان کوئی گھر میرے آیا ہوگا

سچ بتا جن سے تو کرتا تھا وفا کی امید
وقت پڑنے پہ کوئی کام نہ آیا ہوگا

ناز بچوں کے اُٹھاتے ہوئے محسوس کیا
کس طرح باپ نے کردار نبھایا ہوگا

تیرے حصہ میں جو آئی ہے یہ غم کی دولت
تو نے ارمانوں کو سولی پہ چڑھایا ہوگا

جس کی کمزوری بھلا اور کوئی کیا جانے
اس کو تو اپنے ہی لوگوں نے ستایا ہوگا

یا تو اس نے یہ غزل خود سے کہی ہے روشن
یا تو اشعار کہیں اور سے لایا ہوگا

افروز روشن کچھوچھوی

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے