مشہور ادیب منفلوطی نے اپنی ایک کتاب میں بڑا مزے دار قصہ ذکر کیاہے کہ ایک بادشاہ کو عربی زبان و ادب سے خاص شغف تھا؛ البتہ اس کے اندر تھوڑی سی حماقت بھی تھی۔
ایک دفعہ وہ فن نحو کی کوئی کتاب مطالعہ کر رہا تھا اسی اثنا میں اس کی نگاہ ”ضرب زيد عمرًا“ پر پڑی، انھوں نے اس سے پہلے بھی نحو کی متعدد کتابیں پڑھ رکھی تھیں جن میں بہ طور مثال یہی عبارت درج تھی۔ انھیں بڑا تعجب ہوا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ہر جگہ ایک ہی عبارت کو مثال میں لایا گیا ہے؟
چناں چہ اس نے اپنے دور کے ائمہ نحو کو مدعو کیا اور اس کی بابت دریافت کیا، علماء نحو نے جوابا کہا کہ بادشاہ سلامت! یہ عبارت محض قواعد کی تفہیم کے واسطے بہ طور مثال پیش کی گئی ہے اس کا اور کوئی مقصد نہیں ہے۔
بادشاہ نے کہا: اگر یہی بات ہوتی تو ایک مقام پر ”ضرب زيد عمروا“ اور دوسرے مقام پر ”ضرب عمرو زيدا“ ہونا چاہیے، عمرو کو ہر مقام پر مار کھانے والا اور زید کو مارنے والا قرار دینا مجرمانہ حرکت ہے اسے فوری طور پر بند کیا جانا چاہیے۔
جب علماء نحو بادشاہ کو کسی طور پر مطمئن کرنے سے قاصر رہے تو انھیں پابند سلاسل کر زندان میں ڈال دیا گیا۔
اس زمانے میں مصر کے اندر ایک ماہر اور ذہین عالم موجود تھے، انھیں جب معاملے کی خبر ہوئی تو سفارشی بن کر بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوئے، بادشاہ نے ان کی سفارش مسترد کر دی اور کہا کہ جب تک زید کے عمرو کو مارنے کی کوئی معقول وجہ نہیں پیش کی جائےگی کسی کو بھی آزاد نہیں کیا جائےگا۔
عالم صاحب کہنے لگے: بادشاہ سلامت! دراصل عمرو نہایت شرارتی، بےادب اور بدتہذیب قسم کا لڑکا ہے؛ بلکہ اسے تو مزید ضربیں لگنی چاہییں۔
بادشاہ نے کہا: وہ کیسے؟
کہنے لگے: بادشاہ سلامت! آپ کا نام ”داؤد“ ہے، جو کہ بولنے میں دو واو کے ساتھ بولا جاتا ہے؛ مگر لکھنے میں ایک ہی واو لکھا جاتا ہے، آپ کو معلوم ہے وہ دوسرا واو کہاں گیا ہے؟
بادشاہ: کہاں گیا ہے؟
عالم: اسے در اصل کم بخت عمرو نے چرایا ہے اور بغیر کسی ضرورت کے اپنے نام کے ساتھ لاحق کر لیا ہے؛ اسی لیے علماء نحو نے زید کو اس پر مسلط کر دیا؛ تاکہ وہ چوری کے جرم میں اسے ضربیں لگاتا رہے۔
بادشاہ کو یہ سن بےساختہ ہنسی آ گئی، اس نے عالم کو انعام و اکرام سے نوازا اور تمام علما کو رہا کر دیا۔