از قلم : شیبا کوثر
یہ جو ہے !
رو پ بدلنے میں ہے ماہر
اکثر جس کو دیکھ کر
آنکھیں ٹھنڈ ی ہوتی تھیں
امید کی کرنیں جاگ اٹھتی تھیں
رات میں اسکو کالا ناگ
دھیرے سے ڈس جاتا ہے
رگ رگ میں بس جاتا ہے
پھیلنے لگتا ہے زہر آہستہ آہستہ
سارے جسم و جان میں
پھر مدہوشی کے عالَم میں
سارے بندھن ٹوٹ گئے
اور موج کی لہریں غرق کر دیتی ہے
کھیتوں اور کھلیا نوں کو
ختم ہو جاتی ہے ساری فصلیں
دور کھڑا کسان
ہاتھوں کو ملتا رہتا ہے
غم میں گھلتا رہتا ہے
پھر آنکھوں سے اس کے
اشکوں کی بارش خوب ہوئی
اگلے موسم تک
صرف دوب ہی دوب ہوئی۔۔۔۔!!