نتیجہ فکر: سید اولاد رسول قدسی، امریکہ
ہند میں کیسا یہ آیا ہے عذاب
زیست ہوتی جارہی ہے نیم خواب
ہر طرف آہ و بکا کا ہے سماں
درد سہنے کی کہاں کس میں ہے تاب
بابری مسجد کی آہوں کا اثر!
کرب میں ہے مبتلا بھارت جناب
بہتا جاتا ہے لہو کشمیر کا
حکمراں کی بے بسی ہے پر شباب
آہ بھرتی جاتی ہے مظلومیت
جانے کب تک وا رہے گا شر کا باب
دیکھ کر بے بس کسانوں کا ہجوم
شرم سے جمہوریت ہے آب آب
جو تھا پہلے بحر نا پیدا کنار
بن گیا چشم زدن میں وہ سراب
کیسے ہو پائیں گے اب ازبر دروس
دیمکوں کا ہے نوالہ جب کتاب
اب نہ بچ پاۓ گا ظالم قہر سے
ظلم ہوتا جا رہا ہے بے نقاب
جس کو اندازہ نہیں ہے سطح کا
کیسے وہ دیکھے گا کیا ہے زیر آب
کوئ مانے یا نہ مانے سچ ہے یہ
کیف سے رہتا ہے غم کا انتساب
روتی ہے جمہوریت اب زار زار
پیتا ہے حاکم مظالم کی شراب
جس کی خو ہے مسجدوں کا انہدام
دعوئِ عدل اس کا ہے مثلِ حباب
جاننا ہے گر تمھیں وجہِ زوال
پہلے کرنا ہوگا اپنا احتساب
ظلم سے ہو جائیں تائب حکمراں
ورنہ لے ڈوبے گا کووِڈ کا عذاب
قوم مسلم بھی کرے خود سے سوال
چاہئیے بربادیوں کا گر جواب
اس سے کیا امید رکھیں عدل کی
چانٹتا رہتا ہے جو اپنا لعاب
ایک ہی صورت ہے قدسیؔ امن کی
لانا ہوگا ہند میں اب انقلاب