مذہبی مضامین

قربانی کا مقصد جسے مسلمانوں نے فراموش کردیا ۔

ازقلم ۔ جمال احمد صدیقی اشرفی القادری ۔ شل پھاٹا ۔

قربانی کا مقصد اللّٰہ رب العزّت کی رضا اور تقویٰ حاصل کرنا ہے ۔
لہٰذا قربانی سے پہلے ہمیں اپنی نیتوں کا جائزہ لینا ہوگا تاکہ اپنے جانوروں کا خون بہانے سے پہلے ہم اس مقصد کے پانے والے بن جائیں جو اس ذبح عظیم کا مقصد ہے ۔ عیدالاضحیٰ حضرتِ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی عظیم الشان یادگار اور سنت ہے ۔ جس میں انھوں نے حکم الہٰی کی تعمیل میں اپنے بڑھاپے کے سہارے حضرتِ سیدنا اسماعیل علیہ السلام کی گردن پر چھری چلانے سے بھی دریغ نہیں کیا تھا ۔ نہ ان کے ہاتھ کانپے اور نہ ان کے عزم وارادہ میں کوئی تزلزل آیا تھا ۔ ان کی یہ ادا اللّٰہ تعالیٰ کو اتنی پسند آئی کہ اس نے اپنے خلیل کی ادا کو بعد میں آنے والے تمام انبیاء کی امتوں پر لازم کردیا ۔ حتیٰ کہ اپنے پیارے حبیب کی امت کے صاحبِ حیثیت مسلمانوں پر بھی اس سنتِ ابراہیمی کو واجب کردیا ۔ حالاں کہ رب کریم اپنے بندوں کے سامنے واضح کرتا ہے کہ اللّٰہ رب العالمین کے یہاں نہ تو تمہارے جانوروں کا گوشت یہنچتا ہے اور نہ خون ۔ بلکہ وہ تو تمہارے دلوں کے تقویٰ کو دیکھنا چاہتا ہے۔ وہ یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ اس کا بندہ جانوروں کے گلے پر جو چھری چلا رہا ہے اس سے وہ اللّٰہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا چاہتا ہے یا نام ونمود اور واہ واہی بٹورنے کےلئے اس نے بھاری قیمت کے جانور کو زمین پر دے پٹکا ہے ۔ رب دیکھنا چاہتا ہے کہ کیا اس کا بندہ جو اس کے حکم کی تابعداری میں جانوروں کو قربان کررہا ہے اگر جادہ حق کی پاسبانی اور حفاظت کے سفر میں اللّٰہ کے دین کو اس کے گردن کی ضرورت پڑی تو وہ اس قربانی کے جانور کی طرح اپنے گلے پیش کرنے کا جذبہ حاصل کرنے میں کامیاب ہورہا ہے یانہیں ؟ اس قربانی کے ذریعہ رب اپنے بندوں میں جذبۂ ایثار اور فدا کاری دیکھنا چاہتا ہے ۔
اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ ہم دورِ زوال میں ہیں ۔ اور دورِ زوال میں ایک زوال یافتہ قوم کی جو نفسیات ہوتی ہے وہ پورے طور پرمسلمانوں میں موجود ہے ۔ یعنی حقیقی پیغام سے صرفِ نظر کرلینا اور رسم کی ادائیگی پر زور دینا ۔ ہم ہرسال قربانی دھوم دھام سے مناتے ہیں ۔ کچھ لوگ کچھ خصوصی نشانیوں والی بھینس ۔ بکرے ۔ بھیڑیں ۔ لاکھوں کی رقم میں خریدتے ہیں ۔ اور پوری نمائش کے ساتھ رسمِ قربانی ادا کرتے ہیں ۔ لیکن ہم بھول جاتے ہیں کہ قربانی کا پیغام کیا ہے ۔؟ اس کا مقصد کیا ہے ۔؟ اللّٰہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے آخری کلام ( قرآنِ مجید ) میں یہ واضح طور پر کہا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کو قربانی کا گوشت اور خون نہیں پہنچتا اس تک تو تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے ۔ اور آج یہی تقویٰ جو قربانی کا حقیقی پیغام ہے ہم سب سے غائب ہورہا ہے ۔ نتیجہ یہ ہے کہ قربانی محض ایک رسم اور نمود ونمائش کا موقع بن کر رہ گئی ہے ۔
قربانی سے قبل ہم اس سچائی کو فراموش کرچکے ہیں کہ خالقِ کائنات کی خوشنودی کا راستہ اس کی مخلوق کی حقوق کی ادائیگی سے ہوکر جاتا ہے ۔
حقوق العباد کی ادائیگی کے بغیر حقوق اللّٰہ بےسود ہیں ۔ عیدالاضحیٰ کے موقع پر اللّٰہ رب العزّت کے حکم سے جو قربانی کی جاتی ہے ۔ اس میں حضرتِ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے جذبۂ قربانی کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے اور آپس میں محبت ۔ برداشت ۔ ایثار وقربانی کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے ۔
کامیابی کے لئے قربانی ضروری ہے ۔ لیکن جانور کی قربانی سے پہلے اپنی خواہشات کی قربانی اور تزکیہ نفس ضروری ہے ۔ آج ہم نے جانوروں کی گردنوں پر چھریاں چلانے کی رسم تو اپنالی ۔ لیکن سنتِ ابراہیمی کو فراموش کرتے ہوئے اپنے نفس کو بےلگام چھوڑ چکے ہیں ۔ یاد رکھنا چاہیے کہ ہم جو بھی عبادت کرتے ہیں اس کا مقصد اللّٰہ تعالیٰ کی خوشنودی اور اس کی رضا ہے ۔
اگر قربانی کرتے ہوئے یہ جذبہ موجود نہیں تو صرف قربانی کی رسم پوری ہوگی اور کوئی فائدہ نہیں ہے ۔ عیدالاضحیٰ کا دن یہ سوچنے کی تحریک دیتا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کی خوشنودی کی خاطر بہت سی خواہشات کی قربانی دینا ہے ۔ یعنی ہمیں صرف مال وزر ہی خرچ نہیں کرنا ہے ۔ بلکہ اپنے اندر قربانی کی اصل روح بھی بیدار کرنی ہے ۔ جو کہ سال کے بقیہ دنوں تک ہماری ذات کا حصہ بنی رہے ۔ اور ہم سال بھر چھوٹی چھوٹی قربانیاں دیتے رہیں ۔ تاکہ آئندہ آنے والی عیدالاضحیٰ پر ہم ایک بار پھر اسی نیک نیتی اور صحیح روح کے ساتھ بڑی قربانی کرسکیں ۔
غور کیجئے حضرتِ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی زندگی امتحانات میں گزری ۔ آخری عمر میں بیٹے کا ملنا ۔ پھر اس کی قربانی کا حکم اور اسے اللّٰہ رب العزّت کی راہ میں قربانی کےلئے پیش کردینا ۔ بہت بڑا امتحان تھا ۔ باپ اور بیٹے دونوں نے اپنی جبینِ نیاز کو رب العالمین کے دربار میں خم کردیا ۔ جب آنکھوں سے پٹی کھولی تو حضرتِ اسماعیل علیہ السلام زندہ تھے ۔ مگر اللّٰہ تعالیٰ اپنے پیارے خلیل کے جذبۂ ایثار ووارفتگی کو پسند اور قبول کرچکا تھا ۔ اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آپ نے اپنا خواب سچا کردیا ۔ ہم محسنین کو ایسے بدلہ دیتے ہیں ۔ کہ آپ کی قربانی قبول ہوگئی ۔ رب بھی راضی ہوگیا ۔ اور آپ کا بیٹا بھی اسی طرح سلامت ہے ۔ آگے ارشاد فرمایا ۔ یہ بہت بڑا ذبیحہ جو آپ کو ہم نے دیا ۔ اسے ہم آگے آنے والوں کے لئے رکھیں گے ۔ یادگار بنادیں گے ۔
یہاں غور کرنے والی بات ہے کہ کیا ہم اللّٰہ کے پیغمبر جیسا وہ جذبہ اپنے اندر پیدا کرنے میں کامیاب ہورہے ہیں یانہیں ۔ کہ اللّٰہ رب العالمین کے دین اور اس کی سربلندی کے لئے اگر ہمیں بھی کبھی اپنے جگر کے ٹکڑوں کو راہِ خدا میں پیش کرنے کی نوبت آئے تو ہم بھی اللّٰہ کی رضا اور تقویٰ حاصل کرنے کیلئے یہ کام کر گزریں گے یا نہیں ۔
اگر ہم نے جانوروں کی قربانی کےساتھ وہی عزم ۔ وہی جذبۂ خلیل اللہی پالیا تو یقین مانئے کہ آپ اللّٰہ رب العزّت کے نزدیک سرخرو ہیں ۔ سرکار دوعالم ﷺ سے پوچھا گیا کہ قربانی کیا ہے ؟
ارشاد فرمایا کہ یہ میرے اور تمہارے باپ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے ۔
ہمیں اپنے مذہبی تہواروں کو ان کے عین تقاضے کے مطابق منانے کی کوشش کرنی چاہئے ۔ اور اپنے دین کی نمائندگی اس انداز سے کرنی چاہئے کہ دوسرے مذاہب کے ماننے والے ان ہماری تہواروں کو محض تفریح کا ذریعہ نہ سمجھیں ۔ سوچیں کہیں آپ کی قربانی جذبۂ ایثار ۔ اور خلوص سے تو خالی نہیں ۔ اور اگر ایسا ہے تو اپنے اعمال کو درست کرنے کی کوشش کریں ۔ اور جانوروں کی قربانی کےساتھ اپنی جھوٹی انا ۔ خواہشاتِ نفس کی بھی قربانی کریں ۔ جو مسلمان آج قربانی کررہے ہیں حضرتِ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے عظیم الشان عمل کی یاد کو تازہ کررہے ہیں ۔ ان کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ قربانی سے زیادہ قربانی کے پیغام کو سمجھیں ۔ کہ وقت کے نمرود کے سامنے کلمۂ حق کہنے کی جراءت اپنے اندر پیدا کریں ۔ دین وایمان اور ملت اسلامیہ کیلئے کسی بھی قسم کی قربانی سے گریز اور دریغ نہ کریں ۔ چاہے اپنا گھر بار چھوڑنا پڑے ۔ اجنبی سرزمین میں بودوباش اختیار کرنی پڑے ۔ حتٰی کہ اگر اپنی اولاد کو قربان کرنے کا مرحلہ درپیش ہو تو بھی ہمت اور حوصلہ سے کام لیا جائے ۔ خاردار وادیوں اور سنگلاخ پہاڑیوں کا سینہ چاک کرنا پڑے پھر بھی اللّٰہ کی رضا اور خوشنودی کے لئے خود کو مٹاتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں ۔
حتیٰ کہ کامیابی ہمارے قدم چوم لے ۔
دعا ہے کہ رب العالمین ہم سب کو حضرتِ سیدنا ابراہیم علیہ السلام وحضرت سیدنا اسماعیل علیہ السلام کے ایثار وجذبے کا صدقہ عطا فرمائے اور ہم سب کی ادنٰی قربانیوں کو اپنی بارگاہ میں شرفِ قبولیت سے نواز کر ہم سب کو دارین کی سعادتوں سے مالا مال فرمائے ۔ آمین یارب العلمین بجاہ طہٰ ویسین ۔

طالب خیر ۔ جمال احمد صدیقی اشرفی القادری بانی دارالعلوم مخدوم سمنانی شل پھاٹا ممبرا ۔۔۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے