سائنس و فلسفہ

کیا زمین ساکن ہے اور سورج متحرک ہے؟

رسالت مآب ﷺ کے حیات طیبہ میں سائنسی تصور یہ تھا کہ زمین رکی ہوئی ہے اور سورج اس کے چاروں طرف گھوم رہا ہے اور اس وقت قرآن مجید میں یہ ذکر ہوا کہ سورج گھوم رہا ہے۔لوگوں کے مشاہدہ کے حساب سے کتاب اللہ کا یہ بیان بالکل صحیح ہے۔جب یہ بات سامنے آئ کہ زمین سورج کے ارد گرد گھوم رہی ہے تب بھی سورج کے متحرک ہونا سائنسی اعتبار سے غلط ثابت نہیں ہوا کیونکہ تمام اجرام فلکی کے طرح سورج بھی اپنی مدار پر گھوم رہا ہے،اسی طرح کلام اللہ کی یہ بات کے سورج گھوم رہا ہے دونوں اعتبار یعنی لوگوں کے مشاہدہ کے اعتبار سے اور سائنسی اعتبار سے بھی صحیح ہے۔اللہ تعالی نے نزول قرآن کے وقت یہ نہیں بتایا کہ زمین گھوم رہی ہے کیونکہ اس سے عرب معاشرہ کے لوگ کنفیوزڈ ہو جاتے۔
کائنات کے ماڈل کے متعلق کے سائنس دانوں کے دو متفرق اور متضاد نظریات رہے ہیں۔ایک نظریہ وہ تھا جس میں زمین کائنات کے مرکز میں ساکن ہے اور سورج اور دیگر سیارے زمین کے چاروں طرف دائرہ نما مدار میں گردش کر رہے ہیں۔اس نظریہ کو Geocentrism کہا جاتا ہے۔یہ بہت ہی قدیم نظریہ تھا اور اس نظریہ کے ماننے والوں میں زیادہ تر قدیم یونانی فلاسفر مثلاً ارستو (Aristotle) پلیٹو (Plato) اور اسکندریہ کے Ptolemy تھے۔Geocentrism کا یہ ‌نظریہ سائنس کی دنیا میں بہت ہی مقبول رہا اور تقریباً 2000سالوں تک پوری دنیا میں اسی نظریہ کی تعلیم دی جا رہی تھی‌،لیکن 16ویں صدی کے ابتدا میں فلکیات کی دنیا میں ایک نیا Revolution نے جنم لیا جس نے کائنات کے ماڈل کے تصور کو ہی بدل ڈالا اور Heliocentrism کے نام سے ایک نیا نظریہ سامنے آیا۔اس نظریہ میں یہ بات کہی گئ کہ کائنات کے مرکز میں سورج واقع ہے اور اسکے چارو طرف زمین اور دوسرے سیارے گردش کر رہے ہیں۔
اس نظریہ کو سب سے پہلے پیش کیا پولینڈ کے ماہر فلکیات نیکولس کوپرنیکس (1473-1543)۔اسنے اپنی کتاب On the Revolutions of the Celestial Spheres
میں کہا کہ کائنات کا مرکز سورج کے قریب ہے، آسمان میں جو بھی حرکت نظر آتی ہے وہ آسمان کے حرکت کے سبب نہی ہے بلکہ زمین کے گردش کے وجہ سے ہے،سورج کی بھی حرکت جسکا ہم مشاہدہ کرتے ہیں وہ بھی سورج کی اپنی حرکت کے وجہ سے نہیں ہے بلکہ زمین کی حرکت کی وجہ سے ہے
اسکے بعد جرمن کے ماہر فلکیات جان کیپلر (1571- 1630) نے سیارے کے گردش کے تین کلیہ دریافت کیے اور پہلی مرتبہ Circular Orbit کے جگہ Elliptical Orbit کا تصور دیا۔ سبھی سیارے سورج کے گرد Elliptical Orbits میں چکر لگاتے ہیں اور جب کوئ بھی سیارہ سورج کے قریب ہوتا ہے تو تیز رفتار سے سفر کرتا ہے اور سورج سے جتنا زیادہ دور پر سیارہ ہوتا ہے اتنا ہی بڑا اسکا مدار ہوتا ہے۔
اس کے بعد اٹلی کے ماہر فلکیات گیلیلیو (1564- 1642) نے Heliocentrism کے نظریہ کو آگے بڑھایا جسکے وجہ سے اسکو چرچ کا سامنا کرنا پڑا۔ اسکا عقیدہ Bible کے عقیدہ سے ٹکڑا رہا تھا۔
اس کے اس عقیدہ پر کہ سورج کائنات کے مرکز میں ساکن ہے اور زمین اسکا چکر لگاتا ہے اسے ملحد کرار دیا گیا اور تاحیات اسے گھر میں نظر بند رکھا گیا اور ملحد ہی مرا۔
اس کے بعد انگلینڈ کا مشہور سائنسداں نیوٹن (1642_1727 ) نے
Law of gravitational force of attraction دریافت کیا جسکے مطابق اجرام فلکی کے مابین قوت کشش کام کرتی ہے۔زمین اپنی مدار پر اس لیے ٹکا ہوا ہے کہ اس پر سورج کی قوت کشش کام کرتی ہے۔
ڈنمارک کا ایک ماہر فلکیات جو Tycho Brahe کے نام‌ سے مشہور ہے اس نے Geocentrism اور Heliocentrism کے اختلاط سے Geo-Heliocentric System کا نظریہ پیش کیا اور اسکے مطابق سورج اور چاند زمین کے گردش کرتے ہیں جبکہ دوسرے سیارے (Mercury, Venus, Mars, Jupiter اور Saturn) سورج کے گرد چکر لگاتے ہیں۔ 1616 کے بعد Tycho System بہت ہی مقبول ہوا اور بہت لوگ اس نظریہ کے قائل ہوۓ کیونکے دوسری طرف روم نےیہ اعلان کردیا تھا کہ Heliocentrism Model of Universe مقدس کتاب کے عقائد کے خلاف تھا۔
ایک بات قابل غور ہے کہ جس وقت ارسطو اور ٹالیمی کا Geocentrism کا نظریہ پوری دنیا میں علم فلکیات کا ایک مسلم عقیدہ بن چکا تھا عین اسی دوران قدیم یونانی ماہر فلکیات Aristarchus of Samos
نے سب سے پہلے کاینات کا Heliocentric Model پیش کیا اور بتایا کہ کائنات کے مرکز میں سورج ہے اور زمین اس کا چکر لگاتی ہے، لیکن اس کا یہ نظریہ اس وقت تسلیم نہیں کیا گیا۔
ہمارے یہاں سائنس(Science) کے بارے میں ایک تعصب اور عناد کا رویہ اپنایا جاتا ہے،بارہا یہ سننے کو ملتا ہے کہ سائنس کا علم غیر یقینی ہے،غیر قابل اعتماد ہے، اسکا علم بدلتے رہتا ہے،سائنسدان آج کچھ کہتا ہے کل کچھ کہتا ہے،سائنس کے ساتھ ایسا تب ہوتا تھا جب وہ اپنے طفلانہ دور میں تھا،ایک سائنسداں ایک نظریہ پیش کرتا بعد میں دوسرا سائنسداں آتا اور اس کے ‌نظریہ کی اصلاح کرتا،پھر تیسرا آتا اور اس میں مزید اصلاح کرتا۔سائنس کا علم اتنے سارے منازل کو طے کرکے آگے بڑھتا اور پھر ایک قیاسی علم سے ایک حقیقی علم میں تبدیل ہو جاتاہے۔سائنس کے علم کا یہ سفر ایک دن کا نہیں ہوتا اس میں سالوں لگ جاتے ہیں۔سائنس اپنے علم کو زوز زبردستی منوانا نہیں چاہتا وہ اس کے لیے ثبوت اور شواہد فراہم کرتا ہے۔اس کا ایک اچھی مثال Heliocentrism کا Geocentrism پر فتحیاب ہونا ہے۔ہم پہلے ہی بتا چکے ہیں کہ Geocentrism کا عقیدہ علم فلکیات کی دنیا میں دو ہزار سال تک غالب رہا۔
اب جیوسینٹرزم کا نظریہ ایک سائنسی یقینی علم بن چکا ہے جسکے حق میں دن رات کا ہونا،موسم کی تبدیلی،سورج اور چاند گرہن کا ہونا، Coriolis force جیسے Evidences پیش کیے جاتے ہیں۔
سائنس کا علم یقینی اس لیے ہوتا ہے کیونکے یہ مشاہدہ،تجربات اور استدلال پر مبنی ہوتا ہے۔
اگر ایسا نہیں ہوتا تو سائنس کے کمالات اور عجائب ممکن نہ ہوتے،سائنسی علوم کہ حق ہونے کی یہ دلیل کافی ہے کہ آپ ک ے گھروں میں Electrical اور Electronic کے سامان موجود ہے۔اگر سائنس کا علم متغیر ہوتے رہتا تو ہونا یہ چاہیے تھا کہ آپ پنکھا کا سویچ آن کرتے اور پنکھا نہیں چلتا اور فریج میں رکھا ہوا پانی ٹھنڈا نہیں ہوتا۔
سائنس کا کام ہے اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے کائنات کا مشاہدہ کرنا اور اس میں ہونے والے قدرتی مظاہر کے اسباب کو بیان کرنا مثلاً جوار بھاٹا کیوں ہوتا ہے؟ زلزلے کیوں آتے ہیں؟ سورج اور چاند گرہن کیوںکر ہوتے ہیں؟دن رات کیون ہوتے ہیں یا موسم کی تبدیلی کیسے ہوتی ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔
سائنس یہ دریافت کرتی ہے کہ وہ کون سے اللہ کے قانون یا کلیہ ہے جس کی وجہ سے یہ سب کچھ ہوتا ہے۔
نیوٹن نے اگر یہ بات کہا کہ سیب زمین پر Gravity کے سبب درخت سے نیچے گر گیا تو اس نے قوت کشش کو پیدا نہیں کیا بلکہ جس طرح اللہ تعالیٰ تمام چیزوں کا خالق ہے اسی طرح کلیہ اور قانون کا بھی وہی خالق ہے اور اسی مخفی اور پوشیدہ قانون کا دریافت سائنس کرتی ہے۔
زمین ساکن ہے یا سورج یا زمین متحرک ہے یا سورج دین میں یہ مسلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب ہم Geocentrism یا Heliocentrism کے نظریات کو قرآن مجید میں تلاش کرنے لگتے ہیں۔اگر ہم‌ صرف اس بات پر اکتفا کریں کے قرآن مجید سورج چاند اور دیگر اجرام فلکی کے بارے میں کیا بات کہتا ہے اور کتنا بات کہتا ہے تو مسلہ ہی پیدا نہیں ہوگا۔دوسری بات یہ ہے کہ کلام پاک ہر دور کے لوگوں کے لیے ہے،اس لیے اس میں کوئ بھی بات اس طرح سے بیان نہیں ہوتی کہ کسی خاص دور کے لوگوں کے لیے اس کے سمجھنے میں الجھن پیدا ہو۔ مثلاً نزول قرآن کے وقت جب یہ بات قرآن مجید میں کہی گئ کہ سورج اور چاند دونوں اپنے اپنے مدار میں گردش کر رہے ہیں ( سورہ یس آیت۔38۔39) تو اس وقت Geocentrism کا نظریہ دنیا میں رائج تھا اور اس نظریہ میں سورج کے گردش کو تسلیم کیا گیا تھا اس لیے اس وقت کے لوگوں کے لیے بھی قرآن کے بیان اور سائنس کے بیان میں کوئ اختلاف نہیں ہوا۔اسی طرح اس وقت بھی اور ابھی بھی اگر عوام الناس کے مشاہدہ کے نظریہ سے دیکھا جائے تو بھی قرآن مجید کا بیان ٹھیک ہے کیونکہ ہم‌ اور آپ سبھی سورج کو مشرق میں طلوع اور مغرب میں غروب ہوتے ہوۓ دیکھتے ہیں اور چاند کو بھی مغرب سے مشرق کے طرف گردش کرتے ہوۓ دیکھا جاتا ہے۔سائنس اور ٹیکنالوجی کے اس ترقی کے دور میں بھی یورپ کے لوگ ہوں یا ایشیا یا افریقہ کے کوئ بھی کہیں کے لوگ ہوں Sunrise اور Sunset کے اصطلاح کا استعمال کسی نے نہیں چھوڑا۔
16ویں صدی کے آغاز میں ہی جب Heliocentrism کا نظریہ Geocentrism کے نظریہ کو مسترد کرتے ہویے اپنے اقتدار کو قائم کیا تب بھی قرآن مجید کے بیان پر کوئ اثر نہیں پڑا کیونکہ جدید نظریہ بھی اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ سورج اپنے مدار پر چکر لگاتے رہتا ہے حالانکہ وہ اس بات کو نہیں مانتا کہ سورج زمین کا گردشی کرتا ہے جو قدیم نظریہ میں کہا گیا تھا۔
قرآن نے اس معاملہ میں سکوت اختیار کیا کہ سورج زمین کا طواف کرتا ہے وہ صرف اتنا بیان کیا کہ سورج اپنی مدار میں گردش کرتا ہے۔سورج کو اپنے محور پر ایک چکر لگانے میں 27 دن‌ لگتے ہیں۔ سورج اپنے پورے نظام شمسی کے ساتھ کہکشاں Milky way کے مرکز کے اطراف 828000کیلو میٹر فی گھنٹہ کے رفتار سے گردش کر رہا ہےاور اس رفتار سے چکر لگانے پر بھی اسے ایک چکر پورا کرنے میں 230 ملین سال لگے گیں۔
چونکہ سائنس یہ دریافت کر چکا ہے کہ تمام کے تمام اجرام فلکی بشمول ستارے،سیارے،کہکشاں شہاب ثاقب وغیرہ کائنات میں گھوم رہے ہیں اور قرآن مجید نے بھی سورج اور چاند کے گردش کو بیان کیا ہے اور جس طرح سورج اور چاند اجرام فلکی ہیں اور ہماری زمین بھی سورج اور چاند کے مانند ایک اجرام فلکی ہے تو سورج اور چاند کے گردش کا اطلاق زمین پر بھی کیا جا سکتا ہے۔
ایک بات اور قابل غور ہے کہ ہم نے کہا کہ قرآن پاک جتنی بات اجرام فلکی سے متعلق بیان کرے اتنے ہی پر صبر کرنا چاہیے،اس کے مزید تفصیل میں نہیں پڑنا چاہیے۔مثال کے طور پر عربی لفظ فلک کا ترجمہ مدار کیا گیا ہے۔سورج اور چاند اپنے اپنے مدار میں گردش کر رہے ہیں۔اب ہمیں مدار کی نوعیت کے بارے میں جستجو نہیں رکھنی چاہیے کیونکہ قدیم فلکیات یعنی جیوسینٹرزم میں مدار Circular تھا لیکن جدید فلکیاتی نظریہ میں مدار Elliptical ہے اور سورج دو Focii میں سے کسی ایک Focus پر واقع ہے۔

آخر میں!
قرآن مجید میں موجود ایک ہزار سے زائد آیات سائنس کی کامیابیوں کے متعلق گفتگو کرتی ہیں۔مثلا۔قرآن پاک کی آیت (ثم خلقنا النطفۃ علقۃ) پھر ہم نے نطفے کو جمے ہوئے خوں کی شکل دی۔علقۃ کا معنی خون کا لوتھڑا اور چپکا ہوا مادہ جیسا کہ جونک اور یہی لفظ سائنس کے ماہر ڈاکٹر نے بھی استعمال میں لایا،جونک کسی جاندار سے چپک کر اسکے خون سے غذا حاصل کرتا ہے اور بچہ جب اپنی ماں کے شکم میں ہوتا ہے تو رحم میں چپک کر ہر خام مال لوٹ لیتا ہے جو اسے اپنی نشونما میں ضروری ہے۔
آسمان کو ہم نے اپنے زور سے بنایا اور ہم ہی اسے توسیع دینے والے ہیں۔ یہاں جو لفظ استعمال ہوا ہے (لموسعون) ہم اسے یقینا وسیع کر رہے ہیں۔ ساتویں صدی میں اسکا مطلب صرف اتنا کیا گیا تھا کہ خدا نے ہماری زندگی کے دوام کیلے ایک وسیع اور بارآور کائنات کی تخلیق فرمائی۔ آج سائنسی تحقیق کہتی ہے کہ کائنات دن بہ دن پھیلتی جارہی ہے۔ اور قرآن کا لفظ لموسعون اس پر صادق آتا ہے۔
سائنسی نظریہ Relativity پیش کرنے والا آئن اسٹائن کہتا ہے سائنسی تحقیق آدمی میں ایک خاص قسم کے مذہبی احساسات پیدا کرتی ہے، یہ ایک طرح کی عبادت ہے۔ دوسری طرف ماہر امراض قلب ڈاکٹر مورلیس بکائی لکھتے ہیں اس میں کوئی تعجب نہیں ہونا چاہئے کہ اسلام نے مذہب اور سائنس کو ہمیشہ جڑوا بہنیں تصور کیا۔ مشاہد ہ فلک کیلئے پہلا ٹیلی اسکوپ استعمال کرنے والا سائنسداں گلیلیو کہتا ہے کہ یہ کائنات اور اس کے سارے حقائق خدا کے تخلیق کردہ ہیں، کائنات اللہ کی تحریر کردہ دوسری کتاب ہے۔ آئزک نیوٹن نے جسے دنیائے سائنس کا بڑا نام سمجھا جاتا ہے دہریت کی مخالفت اور مذہب کے دفاع میں بہت سے مضامین لکھے ہیں ۔
ابن النفیس نے بخاری کی حدیث: اللہ نے کوئی مرض ایسا پیدانہیں کیا جس کی دوا پیدا نہ کی ہو: کو اپنی سائنسی دریافت کی بنیاد بنایا اور خون کی دل سے پھیپھڑوں کی طرف حرکت Pulmonary Circulation کو دریافت کیا۔

تحریر و تحقیق: ریاض فردوسی۔9968012976

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے