تحریر: محمد ہاشم اعظمی مصباحی
نوادہ مبارکپور اعظم گڑھ یو پی 9839171719
مکرمی! دینِ اسلام کے بنیادی ارکان میں ﷲ و رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانے کے بعد سب سے اہم ترین رکن نماز ہے اس کی فرضیت قرآن و سنت اور اجماعِ امت سے صراحتاً ثابت ہے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ درج ذیل باتوں سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ بندے سے قیامت کے دن سب سے پہلے نماز ہی کے متعلق پوچھ گچھ ہوگی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے وصال کے وقت اپنی امت کو جو آخری وصیت فرمائی تھی وہ نماز ہی کی تھی صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم اس شخص کو منافقین میں شمار کرتے تھے جو جماعت کی نماز میں نہیں آتا تھا۔اسلامی نظامِ عبادات میں نماز کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ قرآنِ حکیم میں 92 مقامات پر نماز کا ذکر آیا ہے اور متعدد مقامات پر صیغہ امر کے ساتھ صریحاً حکم وارد ہوا ہے۔نماز ایسا فریضہ ہے جو اللہ پاک نے دن رات میں پانچ مرتبہ فرض کیا ہے. قرآن پاک میں اس کی بار بار تاکید کی گئی ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے "نماز قائم رکھو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو”۔ (پ ۱۔ آیت۴۳) اسی طرح ہمارے پیارےنبی حضرت محمدﷺ فرماتے ہیں۔ پانچ نمازیں اللہ تعالیٰ نے فرض کی ہیں جس نےان نمازوں کا وضو اچھی طرح کیا اور انہیں بروقت پڑھا اور ان کا رکوع اور سجدہ پوری طرح ادا کیا تو اس کے لئے اللہ تعالیٰ کے ذمہ یہ عہد ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو بخش دے گا اور جس نے ایسا نہ کیا اس کے لئے اللہ تعالیٰ کے ذمہ کوئی عہد نہیں۔چاہے بخش دے چاہے عذاب دے. (ابوداؤد کتاب الصلوٰۃ باب فی المحافظۃ فی وقت الصلوٰۃ) حدیث شریف میں ہے، "بندہ جب نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو اس کے لئے جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور اس کے اور پروردگار کے درمیان حجابات ہٹا دیئے جاتے ہیں اور حوریں بندے کا استقبال کرتی ہیں”(طبرانی)
نماز کے لئے طہارت کبریٰ کے ساتھ وضو کو بھی شرط قرار دیا گیا ہے وضو طہارت کا ایک ایسا اسلامی امتیازی عمل ہے جو کسی بھی مذہب میں نہیں پایا جاتا. سائنسی نکتہ نظر سے وضو ایک ایسا عمل ہے جس سے بدن کے وہ حصے صاف ہوتے ہیں جن کے ذریعے امراض جسم میں داخل ہوتے ہیں لہذا وضو کرنے کی وجہ سے انسان ہر قسم کے جراثیم سے دور رہتا ہے اور ڈپریشن ، بے چینی، بے سکونی، نیند کی کمی وغیرہ جیسے امراض کا خاتمہ ہوتا ہے۔
اللہ پاک کا کوئی بھی کام حکمت سے خالی نہیں ہوتا پس اللہ رب العزت نے ہم پر نماز کا فریضہ مقرر کیا ہے تو یقیناً اس میں بھی ہمارے لئے بے شمار حکمتیں ہیں.جدید سائنس پیراتائیکولوجی کی روشنی میں انسان گوشت پوست‘ خون اور ہڈیوں سے مرکب ایک پتلا نہیں بلکہ خاکی وجود کے اندر نوری جوہر بھی ہے اور یہ نوری جوہر ہی اصل ہے انسان کے اندر تین جرنیٹر کام کررہے ہیں۔ انسان جب نیت باندھنے کیلئے دونوں ہاتھ اٹھا کر کانوں کی جڑوں پر انگوٹھے لگاتا ہے تو ایک خاص برقی رو کان کی جڑ میں موجود باریک رگ کو اپنا کنڈنسر بنا کر دماغ کی طرف جاتی ہے اور ان خلیوں کو چارج کرتی ہے جن کو شعور نظرانداز کررہا تھا اور جب یہ خلیے چارج ہوتے ہیں تو دماغ میں ایک روشنی کا جھماکر ہوتا ہے اور تمام اعصاب اس جھماکے سے متاثر ہوکر دماغ کے اس خاص حصے کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں جن میں روحانی صلاحیتیں مخفی ہیں۔ دوسری طرف دماغ سے ایک برقی رو ہاتھوں میں منتقل ہوجاتی ہے اور جب دوسرے جنریٹر نفس (زیرناف) پر ہاتھ باندھتے ہیں تو ہاتھوں میں موجود کنڈنسر سے ذیلی جرنیٹر میں بجلی کا ذخیرہ ہوجاتا ہے اور زیرناف ہاتھ باندھنے کی وجہ سے جنسی نظام کو طاقت ملتی ہے۔جب ہم ہاتھ کانوں تک اٹھاتے ہیں تو بازوؤں ، گردن کے پٹھوں اور شانے کے پٹھوں کی ورزش ہوتی ہے ۔ دل کے مریض کے لئے ایسی ورزش بہت مفید ہوتی ہیں ۔ جو کہ نماز پڑھنے سے خود بخود ہو جاتی ہے اور یہ ورزش فالج کے خطرات سے محفوظ رکھتی ہے ۔ اور سائنسی تحقیق کے مطابق نماز میں قیام سے دل کا بار ہلکا ہو جاتا ہے کیونکہ وزن دونوں پاؤں پر متوازن پڑتا ہے اور آنکھیں سجدہ گاہ پر لگی رہنے سے دل کی یکسوئی سہل ہو جاتی ہے ۔ انسان میں قوت مدافعت اور اعصاب میں توانائی پیدا ہوتی ہے. اور رکوع سے کمر درد یا ایسے مریض جن کے حرام مغز میں ورم ہو گیا ہو ، بہت جلد صحت یاب ہو جاتے ہیں ۔نیز رکوع سے گردوں میں پتھری بننے کا عمل سست پڑ جاتا ہے اور اگر پتھری بن گئی ہو تو رکوع کی حرکت سے بہت جلد نکل جاتی ہے رکوع کے عمل سے معدہ اور آنتوں کی خرابیاں اور پیٹ کے عضلات کا ڈھیلا پن ختم ہو جاتا ہے. رکوع کی حالت میں بالائی نصف جسم میں جھٹکے کی وجہ سے زیادہ خون پمپ ہوتا ہے ۔ اسی طرح قومہ کرنے یعنی دوبارہ حالت قیام میں آ جانے سے چہرہ اور سر کا دوران خون جو حالت رکوع میں بڑھ گیا نارمل ہو جاتا ہے جس سے شریانوں میں لچک کی استعدادبڑھنے سے ہائی بلڈ پریشر اور فالج کے امکانات کم ہو جاتے ہیں. میڈیکل سائنس کہتی ہے کہ جب نمازی سجدہ کرتا ہے تو اس کے دماغ کی شریانوں کی طرف خون زیادہ ہو جاتا ہے جسم کی کسی بھی پوزیشن میں خون دماغ کی طرف زیادہ نہیں جاتا۔ صرف سجدے کی حالت میں دماغ، دماغی اعصاب اور سر کے دیگر حصوں کی طرف خون متوازن ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے دماغ اور نگاہ تیز ہو جاتے ہیں ایسے ہی جلسہ کرنا یعنی دونوں سجدوں کے درمیان بیٹھنا گھٹنوں اور پنڈلیوں کو مضبوط بناتا ہے اس کے علاوہ رانوں میں جو پٹھے اللہ تعالیٰ نے نسل کی بڑھوتری کے لیے بنائے ہیں ان کو خاص قوت حاصل ہو جاتی ہے جس سے مردانہ اور زنانہ کمزوریاں دور ہو جاتی ہیں تاکہ انسان دماغی اور جسمانی اعتبار سے صحت مند پیدا ہوتا ہے ۔ نماز کے اختتام پر جب ہم سلام پھیرتے ہیں تو اس عمل سے گردن کے عضلات کو طاقت
مل
تی ہیں اور انسان ہشاش بشاش اور توانا رہتا ہے نیز سینہ ہنسلی کا ڈھیلا پن ختم ہو جاتا ہے ۔ان سب باتوں کا فائدہ اس وقت پہنچتا ہے جب ہم نماز پوری توجہ ، دل جمعی، پورے آداب اور سنت کے مطابق ادا کریں اور جلد بازی سے کام نہ لیں.
چونکہ خالقِ کائنات کا کوئی بھی کام حکمت سے خالی نہیں ہوتا ہے اس لیے نماز کے اوقات کا جو انتخاب کیا گیا ہے وہ بھی اپنے دامن میں بے پناہ حکمتیں سمیٹے ہوئے ہیں. اب ذرا ورق الٹئے اوقات نماز کے انتخاب کی اہمیت و حکمت سے فکر و نظر کو مشکبار کیجئے طبی نکتہ نظر سے نماز فجر کے وقت سوتے رہنے سے معاشرتی ہم آہنگی پر اثر پڑتا ہے، کیونکہ اجسام کائنات کی نیلگی طاقت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ رزق میں کمی اور بے برکتی آجاتی ہے۔ چہرا بے رونق ہو جاتا ہے۔ لہٰذا مسلسل فجر قضا پڑھنے والا شخص بھی انہی لوگوں میں شامل ہے۔ اور وہ لوگ جو مسلسل نماز ظہر چھوڑتے ہیں وہ بد مزاجی اور بدہضمی سے دوچار ہوتے ہیں۔ اس وقت کائنات زرد ہو جاتی ہے معدہ اور نظامِ انہضام پر اثر انداز ہوتی ہے۔ روزی تنگ کر دی جاتی ہے۔ سائنس کی جدید تحقیق سے یہ بات بھی عیاں ہوتی ہے کہ نماز عصر چھوڑنے والوں کی تخلیقی صلاحیتیں کم ہو جاتی ہیں، اور عصر کے وقت سونے والوں کا زہن کند ہو جاتا ہے اور اولاد بھی کند ذہن پیدا ہوتی ہے۔ کائنات اپنا رنگ بدل کر نارنجی ہوجاتی ہے اور یہ پورے نظامِ تولید پر اثر انداز ہوتی ہے۔ اور یہ بھی کہ مغرب کے وقت سورج کی شعاعیں سرخ ہو جاتی ہیں۔ جنات اور ابلیس کی طاقت عروج پر ہوتی ہے۔ اس لئے سب کام چھوڑ کر سب سے پہلے مغرب کی نماز ادا کرنی چاہیئے۔ مغرب کے وقت سونے والوں کی اولاد کم ہوتی ہے یا ہوتی ہی نہیں اور اگر ہو بھی جائے تو نافرمان ہوتی ہے۔ ماہرین طب کا اس بات پر اتفاق ہے کہ نماز عشاء چھوڑنے والے ہمیشہ پریشان رہتے ہیں۔ کائنات نیلگی ہو کر سیاہ ہو جاتی ہے اور ہمارے دِماغ اور نظامِ اعصاب پر اثر کرتی ہے۔ نیند میں بے سکونی اور برے خواب آتے ہیں، جلد بڑھاپا آجاتا ہے۔
مذکورہ باتوں سے آسانی کے ساتھ یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ بے نمازی کی نہ دنیا ہے نہ ہی آخرت، کیونکہ یہ ہماری شیطان کے ساتھ گہری دوستی اور ہمارے گناہ ہی ہیں جو ہمیں ﷲ تعالٰی کے سامنے سجدہ ریز ہونے نہیں دیں گے دیتے۔ بیوقوف ہے وہ مسلمان جس کو پتہ بھی ہے کہ پہلا سوال نماز کا ہونا ہے پھر بھی وہ نماز قائم نہیں کرتا۔ جب جنت والے جہنم والوں سے پوچھیں گے کہ تمہیں کون سا عمل یہاں یعنی جہنم میں لے آیا تو وہ کہیں گے کہ افسوس! ہم نماز نہیں پڑھتے تھے۔ (القرآن) اللہ رب العزت ہمیں نماز کی توفیق بخشے اور دارین کی سعادتوں سے مالا مال فرمائے.آمین