از قلم: نازش المدنی مرادآبادی
عشق رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے باب میں امام عاشقاں غزالی دوراں حضرت علامہ مولانا عبدالرحمٰن جامی رحمۃ اﷲ علیہ نام نہایت ہی معروف و مشہور نام ہے کیونکہ آپ علیہ الرحمہ کی مکمل زندگی شمع عشق رسالت صلی اللہ علیہ وسلم سے روشن و تاباں تھی آپ علیہ الرحمہ سچے عاشق رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم تھے ۔آپ نے جس والہانہ انداز سے بارگاہ رسالت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم میں ہدیۂ نعت پیش کیا ہے ، اس بات کا اندازہ آپ علیہ الرحمہ کے اشعار سے کیا جاسکتا ہے ۔آپ رحمۃ اﷲ علیہ کا نعتیہ کلام اگرچہ عشق رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا منہ بولتا ثبوت ہے لیکن نثر میں بھی آپ نے اپنے عشق و محبت کا اظہار کیا ہے ۔ سیرت رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم پر آپ کی جامع کتاب ’’شواہدۃ النبوۃ‘‘ ہے ، جس کا ہر لفظ ہر ہر حرف اور ہر ہر جملہ آپکے عشق رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا عکاس ہے ۔ عشق رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا تقاضا یہ بھی ہے کہ حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت جس چیز سے ہو اس سے محبت کی جائے ، چنانچہ صحابہ کرام علیہم الرضوان اور اہل بیت اطہار علیہم السلام کا ذکر ِخیر بھی دلنشیں انداز میں کیا جائے ۔ اہل بیت ِاطہار علیہم السلام سے بطورِ خاص محبت کا اظہار آپ کی کتاب ’’بارہ امام‘‘ سے بھی ہوتا ہے
علامہ منشا تابش قصوری لکھتے ہیں: حضرت شاہ محمد ہاشم رحمۃ اﷲ علیہ ’’جامع الشواہد‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں۔ ’’ماہ ربیع الاوّل کی ایک پرکیف اور نورانی رات میں امام العاشقین حضرت مولانا عبدالرحمنٰ جامی قدس سرہ السامی نے ایک روح پرور اور ایمان افروز خواب دیکھا کہ محراب النبی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے قریب حبیب کبریا جناب احمد مجتبیٰ محمد مصطفیٰ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم جلوہ افروز ہیں، ذکر و اذکار اور حمد ونعت کا سلسلہ جاری ہے ۔ حضرت جامی رحمۃ اﷲ علیہ بھی چند نعتیہ اشعار پیش کرتے ہیں، جنہیں سرکار ابد قرار صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم منظورفرماتے ہیں۔ جب آنکھ کھلی توجامی رحمۃ اﷲ علیہ پر وجد و سرور کی کیفیت طاری تھی ،عالم جذب میں فرمانے لگے ’’وہ نورانی رخ ِزیبا جو چاند سے زیادہ حسین اور روشن ہے ، جب جبینِ مقدس سے ، آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے موئے مبارک کو ہٹایا تو سراج منیر کی تجلیاں نمودار ہونی لگیں‘‘۔ اسکے بعد جب جامی رحمۃ اﷲ علیہ کا اپنے وطن آنا ہوا تو بے تابی کے عالم میں پکارنے لگے
نسیما جانب بطحا گزر کن زِاحوالم محمد را خبر کن
ببر ایں جان مشتاقم در آنجا فدائے روضۂ خیر البشر کن
توئی سلطان عالم یا محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم
زروئے لطف سوئے من نظر کن
مشرف گرچہ شد جامی زلطفش خدایا ایں کرم بار دگر کن
جامی رحمۃ اﷲ علیہ بیان کرتے ہیں کہ ایک ہفتہ بھی گزرنے نہیں پایا تھا کہ انہیں آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے پھر زیارت سے مشرف فرمایا۔ (اغثنی یا رسول اﷲ ،صفحہ 17,18)
نیز حضرت مولانا عبدالرحمنٰ جامی رحمۃ اﷲ علیہ وہ عاشق رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ہیں جن کو بارگاہ ِرسالت میں شرف قبولیت حاصل ہے
ایک نعت شریف لکھنے کے بعد جب حج کیلئے تشریف لے گئے تو ان کا ارادہ یہ تھا کہ روضہ اقدس کے پاس کھڑے ہوکر اس نعت پاک کو حضور پاک کے سامنے پیش کریں گے ۔ چنانچہ حج بیت اللہ شریف کے لئے تشریف لے گئے اورحج سے فارغ ہوکر مدینہ منورہ کی حاضری کا ارادہ کیا تو امیر مکہ کو خواب میں نبی کریم رؤوف الرحیم کی زیارت نصیب ہوئی ۔آپؒ نے ارشاد فرمایا کہ امیر مدینہ تم سوئے ہوئے ہو جاگو اور اس شخص کویعنی حضرت عبدالرحمن جامی کو مدینہ طیبہ کی جانب آنے سے روکو ۔ چنانچہ گورنر مدینہ نے تمام سرحدوں پر پہرے لگادیئے ۔
حضرت عبدالرحمن جامی بڑے پائے کے عاشق رسول ؐ تھے ۔ ان کے دل پر عشق نبی کریم ؐاس قدر غالب تھا کہ چھپ کر مدینہ طیبہ کی جانب چل پڑے ۔ترکی سے آنی والے قافلے کو اپنے ساتھ لے جانے کو کہا پہلے تو قافلے نے انکار کردیا لیکن پھر چند سکوں کے عوض انہیں مدینہ پاک ساتھ لے جانے پر رضا مند ہوگئے اورعبدالرحمن جامی ؒ کو ایک اونٹ پر موجود صندوق میں بند کردیا ۔جب یہ اونٹوں کاقافلہ جو کہ ترکی سے مدینہ کی جانب رواں دواں تھا جب مدینہ پاک کی سرحد پر پہنچا تو سکیورٹی پر مامور پہرہ داروں نے اس قافلے کو روک لیا اوراسے چیک کیا جانے لگا ۔
قافلے والوں نے بڑی منتیں کیں کہ ہمارے قافلے کو جانے دیا جائے لیکن انہوں نے انکار کردیا اورکہا کہ جب تک آپ لوگ اپنے اونٹوں پر لدے سامان کی مکمل چیکنگ نہیں کرواتے گورنر مدینہ نے مدینہ منورہ میں داخل ہونے سے منع کیا ہے ۔بیسیوں اونٹوں کی چیکنگ کے بعد ایک اونٹ کو جب بٹھایا گیا اور اس پر لدے ایک صندوق کو کھولا تو اس میں سے جناب عبدالرحمن جامی چھپے ہوئے نکال لئے اورانہیں واپس عراق کی طرف ڈھکیل دیا گیا۔
حضرت عبدالرحمن جامی رحمہ اللہ علیہ بڑے غمگین ہوئے اور رونے لگے ۔ پھر دوبارہ عبدالرحمن جامی نے مدینہ کا قصد کیا اورایک بھیڑبکریوں کے ریوڑ کیساتھ چل پڑے ، موصل سے یہ بھیڑبکریوں کا ریوڑ طائف کی طرف رواں دواں تھا علامہ جامی نے اس قافلے والے سے اجازت طلب کی کہ میں آپ کی ان بھیڑبکریوں کی ساتھ حفاظت کرونگا آپ مجھے بھی ساتھ لے چلیں ۔ وہ قافلہ راضی ہوگیا اور علامہ جامی کو اپنے ساتھ لے آیا جب مدینہ کے قریب سرحد پر پہنچے تو آپ نے ایک بھیڑ کی کھال پہن کر سرحد کے دروازے سے مدینہ پاک میں داخل ہورہے تھے کہ اچانک ایک نقاب پوش گھڑ سوار نے آپ کو پکڑ لیا اور لیکر گورنر کی سپرد کردیا اورگورنر نے انہیں قیدخانے میں ڈال دیا ۔ اسی رات گورنر مدینہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ؐکی زیارت نصیب ہوئی اورفرمایا کہ تم نے جامی کو قید میں کیوں ڈالا وہ کوئی مجرم نہیں ہے اسے فوراً رہا کرو کیونکہ وہ صرف عاشق رسول ؐہے ۔
اگرعبدالرحمن جامی مدینہ پاک میں داخل ہوگیاتو مجھے قانون قدرت کو توڑ کر اس کے ساتھ ہاتھ ملانے کیلئے روضہ انور سے باہر آنا پڑے گا ۔
ایک اورروایت کے مطابق عبدالرحمن جامی اس وفد کے لیڈر تھے جو کئی دن کی مسافت کے بعد روضہ رسول پہ حاضری دینے کیلئے اپنے گھروں سے نکلے تھے۔ ان کا نام امام عبدالرحمٰن جامی رحمتہ اللہ علیہ تھا۔ جن کا نام آج بھی تاریخ میں عشق رسول ؐکے حوالے سے زندہ ہے۔
انہوں نے مدینہ سے باہر چند میل کے فاصلے پہ پڑا ڈالا۔ وہ سارا دن ادھر ہی رہے۔ قافلے والوں نے دیکھا کہ ایک گھڑ سوار انکی طرف آ رہا ہے، گھڑ سوار انکے درمیان میں پہنچا اور قافلے والوں سے پوچھا کہ تم میں سے جامی کون ہے؟ لوگوں نے امام کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ یہ امام عبدالرحمن جامی ہیں اور یہ ہمارے قافلے کے لیڈر ہیں اور گھڑ سوار جامی رحمتہ اللہ علیہ کی طرف مڑ گیا اور السلام علیکم کہا۔ جامی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایاوعلیکم السلام! آپ کون ہیں ؟ کہاں سے آئے ہیں؟ اور کس لئے آئے ہیں؟ اس آنے والے گھڑ سوار (جو کہ شکل و صورت سے ایک صوفی معلوم ہوتا تھا) نے کہا کہ میں مدینہ سے آیا ہوں۔
یہ الفاظ سننا تھے کہ حضرت جامی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی پگڑی اتار کر اس گھڑ سوار آدمی کے قدموں میں رکھ دی اور فرمایا کہ میں ان قدموں پہ قربان جو میرے محبوب نبی پاکؐ کے مقدس شہر سے آ رہے ہیں۔ جامی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی بات جاری رکھی اور پوچھا کہ آپ یہاں کس مقصد سے تشریف لائے ہیں؟ آدمی کچھ دیر کیلئے خاموش رہا پھر جواب دیا کہ جامی رحمتہ اللہ علیہ مجھ سے وعدہ کرو جو کچھ میں تمہیں بتاوں گا تم اسے دل تھام کے سنو گے! جامی رحمتہ اللہ علیہ نے آہستہ آواز سے فرمایا کہ ٹھیک ہے۔ آدمی نے اپنی بات جاری کرتے ہوئے کہا کہ مجھے تمہارے پاس نبی آخر زماں حضرت محمدؐ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا ہے۔
جامی رحمتہ اللہ علیہ نے اسکی بات کاٹتے ہوئے فرمایا کہ میرے آقا ؐنے کیا فرمایا ہے! آدمی نے کہا کہ نبی پاک نے آپکو مدینہ شریف آنے سے اور ملاقات سے منع فرمایا ہے۔ یہ الفاظ جامی رحمتہ اللہ علیہ کے دل پر تیر کی طرح لگے اور آپ کا سر چکرانا شروع ہو گیا اور تھوڑی دیر بعد بے ہوش ہو کر زمین پر گر گئے۔انکے ساتھی یہ دیکھ کر پریشان ہو گئے کہ انکے امام گزر گئے ہیں۔ لیکن کچھ گھنٹوں بعد آپ کو ہوش آ گیا ۔ آدمی ابھی ادھر ہی تھا۔ جامی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ مجھے بتا کہ کیوں میرے آقاؐ نے مجھے مدینہ شریف داخل ہونے سے رو
کا ہے!
میں نے کیا گناہ کیا ہے کہ میرے آقا ؐ مجھ سے ناراض ہو گئے ہیں! آدمی نے جواب دیا کہ آقاؐ آپ سے ناراض نہیں ہیں بلکہ وہ تو آپ سے بے حد راضی ہیں۔تو پھر کیوں میرے آقاؐ نے مجھے مدینہ آنے سے روکا ۔ آدمی بولا کہ آقاؐ نے فرما یا ہے کہ جامی سے کہو کہ اگر وہ میرے لئے اپنے دل میں اتنی محبت لے کر مدینہ آیا تو یہ میرے لئے لازم ہو جائے گا کہ میں روضہ سے نکل کر خود استقبال کروں اور اس سے مصافحہ کروں۔ اس لئے جامی سے کہو کہ وہ مدینہ شریف میں داخل نہ ہو میں خود اس سے ملوں گا۔
جامی سے کہو کہ ادھر نہ آئے اور نہ مجھ سے ملے میں خود اس سے ملاقات کروں گا۔ یوں جامی دربار رسالت پہ حاضری دئیے بغیر حاضری کی خواہش اپنے دل میں لیے روتے ہوئے واپس لوٹ گئے۔
قارئین جانتے وہ کلام کونسا ہے جس کے متعلق یہ واقعہ پیش آیا وہ مشہور زمانہ کلام یہ ہے
تنم فرسودہ جاں پارہ زِھِجراں یا رسول اللہ
(میرا جسم ناکارہ اور ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا ہے آپ کی جدائی میں،اے اللہ کے پیارے نبی)
دِلم پژ مردہ آوارہ زِعصیاں یارسول اللہ
(میرا دل بھٹک رہا اور دل کا پھول مرجھا چکا ہے گناہوں کہ بوجھ سے،اے اللہ کے پیارے نبی)
چوں سوئے من گزر آرِی منِ مِسکیں زِ ناداری
(کبھی خواب میں اپنا جلوہ دکھا دیں اس عاجِز مِسکین اور غریب نادار سائل کو)
فِدائے نقشِ نعلینت کنم جاں یا رسول اللہ
( تو میں پھر آپکے(جوتی کے)نقشِ پا پر فدا ہو جاں گا
اے اللہ کے پیارے نبی )
زِکردہ خویش حیرانم سِیاہ شد روز عِصیانم
( میں نے جو کچھ کیا ہے بہت حیران ہوں روزِحساب میرا اعمال نامہ گناہوں کی بہتات سے سیاہ ہوگا )
۔۔پشیمانم پشیمانم پشِیماں یا رسول اللہ۔۔
(میں انتہائی پشیماں اور سخت شرمندہ ہوں پشیمان ہی پشیمان ہوں،اے اللہ کے پیارے نبی۔)۔ زِجامِ حبِ تومستم بہ زنجیرِ تو دِل بستم۔۔
(آپ کی محبت میں،میں مست ہوں آپکے عشق کی زنجیر سے میرا دل بندھا ہوا ہے) ۔۔۔
نمی گویم کہ من ھستم سخن داں یا رسول اللہ۔۔۔
میں عاجز اور مِسکین کوئی دعوی نہیں کرتا کہ میں ایک بہت بڑا شاعرہوں،اے اللہ کے پیارے نبی)
چوں بازوئے شفاعت را کشائی بر گناہ گاراں
( جب روزِ قیامت آپ اپنی شفاعت کا بازو لمبا کرکے گناہ گاروں کے سر پر پھیلا دیں گے)
مکن محرومِ جامی را درا آں یا رسول اللہ
( اس روز اِس عاجز جامی کو محروم نہ رکھیے گا اس جان جوکھوں کی نازک گھڑی میں،اے اللہ کے پیارے نبی…
اللہ کریم ہمیں بھی علامہ جامی کے عشق رسول کا صدقہ عطا فرمائے آمین بجاہ طہ و یس صلی اللہ علیہ وسلم