نبوت و رسالت کا سلسلہ منقطع ہونے سے قبل ہر دور میں اُس دور کے انبیاء کرام علیھم السلام معرفت الہٰی کا ذریعہ رہے سلسلہ نبوت و رسالت منقطع ہونے کے بعد اولیاء عظام و علماء کرام کو صادق و مصدوق نبی ﷺ نے العلماء ورثة الأنبياء کہہ کر ان کو معرفت الہٰی کا ذریعہ قرار دیا ۔
اِس دور پر فتن میں رب تعالیٰ کی معرفت کا سب سے بڑا ذریعہ ایک کامل مرشد ہے بایں وجہ جب کوئ راہبر مل جائے تو سلوک کی منزل آسان ہو جاتی ہے کیونکہ مرشد ہی رہبری کرتا ہے راستہ ایک ہو لیکن رہبر غلط ہو تو آپ منزل مقصود کو نہیں پا سکتے ، دیکھیں حضرت موسیٰ علیہ السلام راہبر تھے راستہ ایک ہی تھا جو حضرت موسیٰ کی رہبری میں راستے پر چلے دریا کو عبور کر حصول کے منازل طے کر لئے لیکن اسی راستے کا ایک چلنے والا فرعون اور اس کے Followers تھے اور وہ اپنے ماننے والوں سمیت اسی دریا میں غرق ہو گیا ۔
اہل علم پر عیاں ہوا کہ راستہ رہبری نہیں کرتا راہبر رہبری کرتا ہے اگر راہبر کامل ہو تو سلوک کی منزل پل بھر میں طے ہو سکتی ہے لیکن اگر راہبر ناقص ہو تو برسہا برس اس راہ کا مسافر منزل کو نہیں پا سکتا ۔
یاد رکھیں جس کام کو انجام دینے میں برسوں لگ جاتے ہیں لیکن کبھی وہ کام آناً فاناً میں ہو جاتا ہے وہ کب ہوتا ہے بشرطیکہ کوئ شیخ کامل مل جائے اور اس کی ایک نظر آپ کے دل پر پڑ جائے تو جو کام بیس پچیس سال میں نہ ہوا ہو وہ اس کی ایک نظر سے ہو جاتا ہے کیونکہ حصول بغیر وصول ممکن نہیں ۔
الحمدللہ اس فتنہ پردازوں کے دور میں مرشد کامل اور ایک راہبر کی اعلیٰ مثال حضور محدث کبیر حفظہ اللہ کی صورت میں موجود ہے جن کے علم و فقاہت زہد و تقویٰ حق و بے باکی جرات و بہادری میں حضور مفتی اعظم ہند کی جھلک اور حضور تاج الشریعہ کی دعا شامل ہے جس کے سامنے اس دور کی بڑی بڑی طاغوتی اور باطل عقائد و نظریات کی حامل قوتیں دم توڑ چکی ہیں۔
رب قدیر پیر و مرشد حضور محدث کبیر اطال اللہ عمرہ کو دارزی عمر بالخیر عطا فرمائے اور اہل سنت والجماعت پر آپ کا فیضان تادیر قائم و دائم فرمائے ۔ آمین
✍️عبدالمنان ضیائی امجدی