علما و مشائخ

مولانا اسید الحق قادری؛ مدتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ تجھے

از قلم: احمد رضا عطاری مدنی
جامعۃ المدینہ گلزار حبیب سبزہ زار لاہور

رسمی طالب علمی کے دنوں میں ہندوستان کے جو خوش قلم محقق ہمارے دل و دماغ پر چھائے ہوئے تھے وہ مولانا اسید الحق قادری بدایونی تھے۔ ان کی تحریریں ہر وقت دامنِ دل کو اپنی طرف کھینچتی رہتی تھیں اور ہم رسالوں میں ان کا نام ڈھونڈ ڈھونڈ کر ان کی تحریریں پڑھتے تھے اور پڑھتے ہی چلے جاتے تھے۔ اس دور میں ان کے قلم نے علمی اور تحقیقی لحاظ سے ہمارے نوعمر ذہنوں کو جس قدر خوراک مہیا کی اس کے سبب سے ہی آج بھی خود کو ان کے خوان علم کا خوشہ چین سمجھ کر ان یاد اور محبت کے چراغ کے لیے دل کے ایک خاص گوشے میں ایک محرابی طاق خاص کر رکھا ہے جس میں ان کی الفت کا ایک دیپ ہمہ وقت روشن رہتا ہے۔

آج اسی قابلِ رشک محقق اور عالمِ باعمل کی یاد کا دن ہے۔ ہم اس شخص کو کیوں نہ یاد کریں کہ ‘جس کو اک شخص سمجھنا تو مناسب ہی نہیں! اور کیسے یاد نہ کریں کہ ان کی تحریروں نے ہی ہمارے علمی ذوق کی تربیت کی اور شوق کو درست سمت عطا کی۔

مولانا اسید الحق قادری بدایونی ، بدایوں کے اس علمی خاندان کے چشم و چراغ تھے جس کے علمی و فکری اور روحانی سفر میں کئی صدیاں سمٹ آتی ہیں۔ شاہ عین الحق عبد المجید قادری اور مولانا شاہ فضل رسول بدایونی کا یہ خاندان روحانیت میں مارہرہ شریف کے اس طیب و طاہر خانوادے سے فیضیاب ہوا جس میں میر سید عبد الواحد بلگرامی جیسے عرفاء کا نورِ عرفان جھلکتا تھا۔ اور علم و فن میں عالَم اس خاندان کا یہ تھا کہ نسل در نسل اس کے ہر چشم و چراغ کو امامِ فلاسفۂ ہندوستان ، علامہ فضلِ حق خیرآبادی کے خاندان یا اس مکتبِ تدریس کے اساتذہ کے پاس بھیجا جاتا تھا ۔

قابل فخر بات یہ ہے کہ مولانا اسید الحق قادری فقط نسبی طور پر علم و عرفان کے امتزاج کی اس وقیع اور قابل قدر روایت کے امین نہیں تھے بلکہ وہ خود بھی علم اور عرفان کا مجمع البحرین تھے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ ایک طرف وہ اپنی مطالعے کی میز پر بیٹھ کر شمسِ مارہرہ ، حضرت آلِ احمد اچھے میاں کے رسالۂ آداب السالکین سے روشناس کروا رہے ہیں تو دوسری طرف ‘خیرآبادیات’ کے نام سے ان کا قلمی شاہکار ہے جس میں وہ خیرآبادی مکتبِ تدریس کے قابل فخر استادوں اور ان کی شفقتوں ، مایۂ ناز شاگردوں اور ان کی عقیدتوں ، علمی معرکوں اور لطیفوں ، خانوادۂ خیر آباد کی اہل علم اور صاحب تصنیف خواتین سمیت دیگر موضوعات پر روشنی ڈالتے چلے جاتے ہیں۔

پھر وہ اپنے عظیم خانوادے کے علماء و مشائخ، خصوصاً ہمارے دلوں کی دھڑکن سیف اللہ المسلول مولانا شاہ فضلِ رسول بدایونی علیہ الرحمہ کے علمی آثار کو جدید اصول تحقیق کی روشنی میں مرتب کر کے اور محققانہ تقدیمات کے ساتھ منظر عام پر لیکر آئے۔ یہ ایک ایسا کارنامہ ہے جو اہل خانقاہ و تصوف اور علماء کے اخلاف کے لیے قابل تقلید بھی ہے اور جمیع اہلسنت کی طرف سے فرض کفایہ بھی۔ لہذا ان کی روح اور ان کی کتب ہم سب کے شکریہ کی مستحق ہیں۔

آٹھ برس قبل یہی تاریخ تھی اور رات کا اندھیرا ہر سو پھیلنا شروع ہو چکا تھا جب یہ غمناک خبر ملی کہ مولانا اسید الحق بدایونی کو سفرِ بغداد کے دوران شہید کر دیا گیا ہے۔

میں اس وقت حضرت غوث الاعظم علیہ الرحمۃ کے آستانے اور وہاں کے کتب خانے میں ان کی حاضری کی تصویریں دیکھ رہا ہوں جو شہادت سے صرف ایک دن پہلے کی ہیں۔ آج کے دن وہ بغداد سے اربل جا رہے تھے جہاں حضرت غوث الاعظم علیہ الرحمۃ کے کسی شہزادے سے ملنا تھا مگر راستے میں ان کی گاڑی پر فائرنگ ہوئی اور وہ شہید کر دیے گئے ۔ ان کا مدفن آستانۂ غوثیہ کے اس قبرستان میں بنا جو سیدنا غوث الاعظم دستگیر علیہ الرحمۃ کے خاندان کے لیے خاص ہے۔

میں سوچتا ہوں کہ ایسے شخص کے مدفن کے لیے شہرِ بغداد ہی موزوں تھا جو ہماری تاریخ کا ایسا شہر ہے جہاں علم اور روحانیت ایک دوسرے سے گلے ملتے ہوئے نظر آتے ہیں۔