از: محمد سلیم انصاری ادروی
سید سالار مسعود غازی رحمتہ اللہ علیہ اپنے لشکر کے ساتھ غزنی سے دہلی، میرٹھ، قنوج میں تبلیغ دین اور جہاد کرتے ہوئے سترکھ ضلع بارہ بنکی پہنچے، اور اس کو اپنا صدر مقام بنا کر مختلف علاقوں میں رفقا کو روانہ کیا، انہیں باعظمت رفقا میں حضرت سالار ملک طاہر رحمتہ اللہ علیہ بھی تھے۔ جو ملک قاسم، ملک شدنی و دیگر مجاہدین کو لے کر مئو ناتھ بھنجن آئے۔ جہاں حاکم نٹ بھنجن سے آپ کا مقابلہ ہوا۔ اسے شکست فاش ہوئی۔ اور وہ قتل کر دیا گیا۔ ملک طاہر اور ان کے ہم راہی مئو ناتھ بھنجن اور اس کے اطراف و جوانب میں اشاعت و تبلیغ کی کوشش کرتے رہے۔ اور اس طرح مئو ناتھ بھنجن اور اطراف میں اسلام پھیلا۔ ملک طاہر رحمتہ اللہ علیہ کا یہیں وصال ہوا۔ اور مئو ناتھ بھنجن ہی میں آپ کی تدفین ہوئی۔ راقم الحروف کو آپ کے مزار شریف پر حاضری دینے کا شرف حاصل ہے۔ محلہ ملک طاہر پورہ (مئو ناتھ بھنجن) کا نام ملک طاہر پورہ آپ ہی کے نام پر پڑا۔
(معارف شارح بخاری/ص: ٧۴)
جب بادشاہ اکبر نے ایک نئے مذہب "دین الٰہی” کی بنیاد رکھی تو نبئ کریم جناب رحمة للعلمین حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے اسی دور کی ایک عظیم علمی و روحانی، شعری و ادبی شخصیت، حضرت دیوان شاہ ارزانی رحمتہ اللہ علیہ (تلمیذ: امام جلال الدین سیوطی شافعی علیہ الرحمہ) کو ہدایت فرمائی کہ "تم ہندوستان جا کر میرے لائے ہوئے دین کی حفاظت کرو۔” چناں چہ حضرت شاہ ارزانی ہندوستان تشریف لائے اور حضرت بایزید روشان انصاری رحمتہ اللہ علیہ کے شانہ بشانہ باطل دین "دین الٰہی” کے محافظ فوجوں پر حملے کیے۔ حضرت شاہ ارزانی نے مختلف علاقوں میں جا کر دین کی تبلیغ بھی کی۔ آپ مئو ناتھ بھنجن میں بھی تشریف لائے، مئو ناتھ بھنجن کی ٹونس ندی کے کنارے بھی چلا فرمایا تھا۔ وہاں بھی ایک مسجد اور ایک چلہ گاہ کی عمارت موجود ہے۔ راقم السطور کے قصبہ ادری (ضلع مئو) سے جانب شمال مشرق ایک میل کے فاصلے پر موضع "شاہ پور” (قدیم نام: فیروز آباد) ہے، جو ایک قدیم با رونق آباد بستی تھی، وہاں بھی آپ متعدد بار تشریف لے گئے۔ سنہ ١٠٢٨ھ کو پٹنہ میں آپ کا وصال ہوا، اور وہیں آپ کی تدفین ہوئی۔ شاہ جہاں بادشاہ نے سنہ ١٠۴٠ھ میں آپ کے مزار شریف پر ایک عظیم الشان روضہ بنوایا۔
(مقالات مؤرخ اسلام/ص: ٩١-١٠١، احوال و افکار/ ص: ١۴-١۵)
شاہ جہاں بادشاہ جو اپنی چہیتی بیٹی جہاں آرا بیگم کی فہم و فراست، علم و دانش اور امور سلطنت میں درک کی وجہ سے اسے بہت محبوب رکھتا تھا، شاہی محل کے انتظامات اسی کے سپرد تھے، بادشاہ نے اپنی لاڈلی بیٹی کو مئو ناتھ بھنجن کا علاقہ بطور جاگیر عطا کیا تھا، سنہ ١٦٢٩ء میں جہاں آرا بیگم جب مئو مئو ناتھ بھنجن آئی تو تمدنی ضروریات کے پیش نظر مختلف صنعت و حرفت کے ماہرین کو آگرہ سے اپنے لشکر کے ساتھ لائی۔ جن میں بڑھئ، درزی، معمار اور پارچہ باف تھے، جن کو مئو ناتھ بھنجن اور اس کے اطراف میں آباد کر دیا۔ شہزادی نے یہاں ایک جامع مسجد بنوائی، جس کے چاروں طرف طلبا کے لیے حجرے تھے۔ اس قصبے نے کپڑے کی کمال صنعت و حرفت کے ساتھ علم و فن کی خدمت بھی انجام دی۔
(احوال و افکار/ ص: ٢٣)
مئو ناتھ بھنجن اب قصبے سے شہر میں تبدیل ہو چکا ہے۔ اور فی الحال یہ ضلع مئو کا صدر مقام بھی ہے، اگر مسلكی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو یہاں پہلے صرف شیعہ اور سنی آباد تھے۔ سنہ ١٨۵٧ء کے بعد یہاں دو اور مکاتب فکر کے اولین مبلغین، مثلا غیر مقلد عالم مولانا سخاوت علی جون پوری (مرید: سید احمد رائے بریلوی) اور دیوبندی عالم مولانا امام الدین پنجابی (فاضل دیوبند) آئے۔ انہوں نے اپنے اپنے مسلک کے مدارس قائم کیے اور اپنے فرقے کی تبلیغ میں مصروف ہو گئے۔ اس دور میں یہاں اہل سنت وجماعت کا کوئی مدرسہ موجود نہ تھا، جس کا نقصان یہ ہوا کہ سنی مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کم علمی کی وجہ سے ان نئے فرقوں میں شامل ہو گئی۔
(تراجم علمائے حدیث ہند – مئو ناتھ بھنجن، مولانا امام الدین پنجابی، احوال و افکار)
کچھ سال بعد اس قصبے میں اہل سنت کے متحرک علما مثلا مولانا عبد الرحمن مئوی، مولانا ظہیر الحسن مئوی، مولانا احمد علی مئوی اور محدث ثناء اللہ امجدی اعظمی مئوی علیہم الرحمہ وغیرہ منظر عام پر آئے، اور انہوں نے بہت حد تک ان فرقوں کو پھیلنے سے روکا۔ اول الذکر دونوں علما امام اہل سنت امام احمد رضا محدث بریلوی علیہ الرحمہ کے خلفا تھے۔ مولانا عبد الرحمن مئوی نے مدرسہ حنفیہ اہل سنت بحرالعلوم مئو قائم کیا، محدث ثناء اللہ کا شمار بھی اسی مدرسے کے بانیین میں ہوتا ہے۔ محدث ثناء اللہ وہ عظیم عالم دین اور محدث تھے، جنہوں نے غالبا درس و تدریس کا آغاز ہی مسند دارالحدیث سے شروع کیا۔ جامعہ مظہر اسلام بریلی شریف، دارالعلوم اشرفیہ مبارک پور، جامعہ فاروقیہ بنارس وغیرہ کے علاوہ جامعہ بحرالعلوم مئو میں بھی آپ نے ایک عرصے تک درس حدیث دیا۔
مولانا احمد علی مئوی جو بیسویں صدی عیسوی کے اول دہائی میں اہل سنت وجماعت کی جانب سے نکلنے والے واحد اخبار "اخبار الفقيہ” امرت سر کے سرپرستوں میں سے ایک تھے، نیز جن کی وجہ سے پورے برصغیر میں اخبار الفقيہ کی سب سے زیادہ کاپیاں مئو ناتھ بھنجن میں فروخت ہوتی تھیں، نے غیر مقلدین حضرات کے رد میں کئی کتب لکھیں اور لکھوائیں، اور اپنے ذاتی پیسوں سے انہیں شائع کیا۔ نیز بہت سارے مضامین بھی قلم بند کیے جو اخبار الفقيہ میں شائع ہوئے۔ جن میں سے چار مضامین راقم الحروف کی نظر سے بھی گزرے ہیں۔ علامہ ڈاکٹر عاصم اعظمی حفظہ اللہ نے کچھ مہینے پہلے مجھ کو بتایا تھا کہ میں نے مولانا احمد علی مئوی کی کتاب "الفوز الکبیر فی ترجمہ نحو میر” جو مطبوعہ ہے کا دیدار کیا ہے۔
(تذکرہ علماے اہل سنت مئو/ص: ٩۵-٩٧)
جب کہ مولانا ظہیر الحسن مئوی جو سنہ ١٣٠٢ھ کو محلہ اورنگ آباد (مئو ناتھ بھنجن) میں پیدا ہوئے۔ آپ اپنے وقت کے بڑے عالم، مفتی اور شیخ طریقت تھے، قطب میواڑ کے لقب سے مشہور ہوئے۔ آپ بھی بعد میں مولانا عبد الرحمن مئوی ثم جے پوری کی طرح راجستھان ہجرت کر گئے۔ اور وہیں مدرسہ اسلامیہ اودھے پور میں تدریسی خدمات انجام دینے میں مصروف ہو گئے۔ ١٢ ربیع الاول سنہ ١٣٨٢ھ کو آپ اس دنیاے فانی سے رخصت ہوئے۔ آپ کا مزار مبارک مسجد سے متصل احاطۂ اولیا برھم پول اودھے پور (راجستھان) میں ہے۔
(١٣۴ خلفائے اعلیٰ حضرت/ص: ٢٠)
فی الحال مئو ناتھ بھنجن (ضلع مئو) میں اہل سنت کے حالات پہلے سے کافی بہتر ہو چکے ہیں۔ مئو ناتھ بھنجن میں اب تقریبا نصف درجن اہل سنت کے مدارس و جامعات (جامعہ حنفیہ بحرالعلوم کھیری باغ، مدرسہ بحرالعلوم شاخ [جامع مسجد شیخ مرچی صدر چوک] مدرسہ اشرفیہ کاملیہ عزیزالعلوم مدن پورہ، الجامعة السرا حوضیہ عزیزالعلوم منشی پورہ، مدرسہ قادریہ مجددیہ اہل سنت وجماعت منشی پورہ) تعلیمی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ جماعت اہل سنت کی اور ہمارے مدارس، مساجد اور تنظیموں کی حفاظت فرمائے، آمین۔