رشحات قلم: محمد امثل حسین گلاب مصباحی
فیض پور سیتامڑھی ٢٦ ستمبر ٢٠٢١ء
اے مرے احمد رضا وصف کیا لکھوں ترا
میری فکروں سے فزوں ہے جب کہ تیرا مرتبہ
تیری فکروں نے کیا قطرے کو بحرِ بیکراں
تیری نظروں نے کیا ذرے کو درِّ بے بہا
تیرے کاموں نے سرِ شوریدہ کو بخشا سکوں
تیری باتوں نے دلِ پژمردہ کو بخشی جلا
تیری نثروں سے ہمیں ملتا ہے الفت کا سبق
تیری نظموں سے ہمیں آتی ہے خوشبوئے وفا
تیری تصنیفات ہوں یا تیری تحقیقات ہوں
اہلِ سنت کے لیے ہیں وہ تو عینِ کیمیا
فخر کرتے ہیں تری تحقیق پر اہلِ نظر
ناز کرتے ہیں تری توضيح پر اہلِ وفا
کیا لکھے تیری ذکاوت کے تعلق سے قلم
تو نے بس اک ماہ میں حفظِ قرآں کر لیا
صدیوں پہلے کی تری تصنیف اور تالیف سے
نجد کے ایوان میں برپا ہے اب تک زلزلہ
اک دیا ایسا جلایا تو نے بزمِ عشق میں
جس سے لاکھوں دل نے پائی عشق و عرفاں کی ضیا
پورے بھارت میں نظر آتا نہیں تجھ سا فقیہ
فقہ سے لاکھوں کا سینہ تو نے روشن کر دیا
ماہرِ اردو ادب بھی کر نہ پایا آج تک
جس طرح قرآن کا تو نے کیا ہے ترجمہ
یاد تیری کیف بن کے ایسے دل پر چھا گئی
برگِ گل پر جیسے چھا جاتی ہے شبنم کی ردا
صدقہ مل جائے اسے بھی اے فقیہِ بے بدل
مانگتا ہے فقہ کی خیرات یہ امثل ترا