از قلم: طفیل احمدؔ مصباحی
آبروئے علم و حکمت ٬ نازشِ قرطاس و قلم ٬ محققِ عصر ٬ مفتیِ دوراں حضرت علامہ مفتی ڈاکٹر ارشاد احمد ساحلؔ سہسرامی مصباحی علیہ الرحمہ کا تعلق اس زر خیز علمی و ادبی اور روحانی خطے سے تھا ٬ جس کے بارے میں آج بھی کہا جاتا ہے کہ ” سہسرام کے کنکر پتھر بھی شاعری کرتے ہیں ” ۔ تاریخِ رجالِ سہسرام کا مطالعہ کرنے والا اس دعویٰ کی ضرور تائید و توثیق کرے گا ۔ اربابِ شریعت و طریقت ٬ فقیہانِ حرم ٬ اصحابِ علم و تحقیق ٬ علما و مشائخ اور شعرا و ادبا کا علمی قافلہ ہر دور میں اس سر زمین پر موجود رہا ہے ۔ گذشتہ ایک صدی کے اندر وہاں سے حضرت علامہ فرخند علی فرحتؔ سہسرامی ٬ علامہ مفتی صدیق صادقؔ سہسرامی ٬ ممدوحِ حافظِ ملت ٬ محدثِ سہسرام حضرت علامہ مفتی ضیاء الحسن ضیاؔ سہسرامی ٬ حضرت علامہ کاملؔ سہسرامی علیہم الرحمہ جیسی وہ نامور علمی و روحانی ہستیاں نمو دار ہوئی ہیں ٬ جن کی دینی و ملی اور علمی و ادبی خدمات سے آج بھی سہسرام کی دھرتی لالہ زار اور رشکِ شیراز بنی ہوئی ہے ۔ ڈاکٹر ساحلؔ سہسرامی نے اپنی علمی و تحقیقی کتاب ” مولانا سید غیاث الدین حسن شریفی : حیات اور شاعری ” کے آغاز میں لکھا ہے کہ سہسرام کی عظمت کے لیے شیر شاہ سوری کی نسبت ہی کافی ہے ٬ لیکن یہ قدرت کے دیگر انعامات سے بھی مالا مال ہے ۔ جین ٹھاکر ” Shahabad land & people ” میں سہسرام کو ” آثارِ قدیمہ کی جنت ” کہتا ہے تو ممتاز صوفی شاعر اور عالم مولانا محمد عثمان عرفان مہاجر مکی اسے ” ریاضِ جنت ” سے تشبیہ دیتے ہیں ۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں :
” الشهسرام بلدة من بلاد الهند من مضافات البهار ٬ لا ريب أن الشهسرام من روضات الجنات ، ذوات العيون الجاريات و الجبال الراسيات والاشجار الخضرات ٬ معدن الأولياء ، مخزن العلماء . یعنی سہسرام مضافاتِ بہار میں ہندوستان کا ایک ممتاز شہر ہے ٬ جو بلاشبہ باغاتِ جنت کا نمونہ ہے ٬جہاں دلکش چشمے بہتے ہیں ، پہاڑوں کی بلند و بالا چوٹیاں ہیں ۔ ہرے بھرے درخت ہیں ۔ سہسرام اولیا کی کان اور علما کا مخزن ہے ۔
( ماہنامہ خوشبو ، سہسرام ٬ جولائی ٬ 1980 ء ، ص : 25 )
اس مدینۃ الاولیاء اور معدن العلماء کو رضا علی عابدی شیروں کے ساتھ ساتھ ” شعروں کی سر زمین ” کہتے ہیں ۔ انہیں یہاں کے سنگریزے بھی گنگناتے سنائی دیتے ہیں ۔ یہ سچ ہے کہ اس شہر کی ٹھیکری بھی بولتی ہے مگر یہ بھی سچ ہے کہ برا نہیں بولتی ۔ سہسرام والے اچھے شعر کہتے ہیں ۔ وہ شاعری کی جدید روایتوں سے کٹے ہوئے نہیں ۔ اس کا احساس مجھے اس شام اس شعری نشست میں پیدا ہوا اور بنارس سے بھی بڑے اچھے اچھے شعر سنے تو ویرانوں میں پھولوں کے کھلنے کا گمان ہوا ……… یہی سہسرام تو ہے جہاں بان بھٹ نے کادمبری لکھی تھی ۔ یہ پھگوا ، چیتا ، کجری اور بارہ ماسہ کی سر زمین ہے ۔ بولتے موسموں نے یہاں اشعار کو نئی نئی تانیں اور بدلتے وقتوں نے نئے نئے معنی عطا کیے ہیں ۔
( جرنیلی سڑک ٬ رضا علی عابدی ٬ کراچی پاکستان ٬ ص : 279 ٬ 280 )
ڈاکٹر ساحلؔ سہسرامی اسی وادیِ علم و حکمت اور مرکزِ شعر و سخن ( سہسرام ) کے ایک نامور سپوت تھے ٬ جو پوری زندگی سراپا حرکت و عمل بنے رہے اور اپنے عزمِ جواں کی ٹھوکروں سے صحرا کو گلزار بناتے ریے ۔ موصوف اپنے ننھے سے وجود میں شاہین کا حوصلہ رکھتے تھے اور نت نئے آفاق کی تلاش میں ہمیشہ سرگرداں و کوشاں رہا کرتے تھے ۔ ڈاکٹر ساحلؔ سہسرامی متعدد علمی خوبیوں کے مالک تھے ۔ شخصِ واحد میں بیک وقت اتنی ساری خوبیوں کا اجتماع بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے ۔ عالم و فاضل ٬ مفتی ٬ مدرس ٬ مفکر ٬ محقق ٬ ادیب ٬ شاعر ٬ محقق ٬ ناقد اور یہ محض رسمی ٹائٹل نہیں بلکہ ان کی علمی و عملی زندگی میں ان کے بیشمار شواہد موجود ہیں ۔ اس مختصر تحریر میں بحیثیتِ مصنف و محقق ان کا مختصر تعارف پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔
ساحلؔ سہسرامی جامعہ اشرفیہ ٬ مبارک پور کے نامور مصباحی عالمِ دین تھے ۔ اپنے وطن سہسرام کی مشہور دانش گاہ دار العلوم خیریہ نظامیہ میں ناظرہ اور ثانیہ تک کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد 29 / جولائی 1986 ء کو جامعہ اشرفیہ ٬ مبارک پور میں داخلہ لیا اور وہاں کے جیّد اساتذہ سے مروجہ علوم و فنون کی تحصیل کر کے 1993 ء میں سندِ فضیلت حاصل کی ۔ فراغت کے بعد شارحِ بخاری حضرت مفتی شریف الحق امجدی کی خصوصی نگرانی میں ” تخصص فی الفقہ ” کا کورس مکمل کیا ۔ فراغت کے بعد تقریباً آٹھ سال تک مادرِ علمی جامعہ اشرفیہ ٬ مبارک پور میں درس و تدریس اور فتویٰ نویسی کی خدمت انجام دی ۔ راقم الحروف جس وقت جامعہ اشرفیہ ( مبارک پور ) میں زیرِ تعلیم تھا ٬ اس وقت آپ کے درجنوں تلامذہ وہاں زیرِ تعلیم تھے ٬ وہ ڈاکٹر ساحلؔ سہسرامی کی علمی فضیلتوں سے متعلق بہت ساری باتیں بتایا کرتے تھے ۔ آپ درسِ نظامی کی چھوٹی بڑی کتابیں پورے عالمانہ طمطراق کے ساتھ پڑھایا کرتے اور طلبہ آپ کی درس گاہ سے مطمئن ہو کر لوٹتے تھے ۔ جامعہ اشرفیہ میں درس و تدریس کے علاوہ فقہ و افتا کی خدمت بھی آپ سے متعلق تھی ۔ اشرفیہ جیسے با وقار ادارے میں آپ نے ایک ہزار فتاویٰ تحریر کیے ٬ جن پر حضور شارحِ بخاری کی تصدیقات موجود ہیں ۔ جب آپ اشرفیہ میں مدرس و مفتی کی حیثیت سے خدمت انجام دے رہے تھے ٬ اس وقت اساتذہ و طلبہ میں آپ کے علم و فضل کا بڑا چرچا تھا ۔ شارحِ بخاری کے بڑے محبوب اور منظورِ نظر تلمیذ تھے ۔ اسی طرح محدثِ جلیل حضرت علامہ عبد الشکور مصباحی ( سابق شیخ الحدیث جامعہ اشرفیہ ٬ مبارک پور ) سے بھی آپ نے خوب خوب اکتسابِ فیض کیا تھا ۔ علامہ عبد الشکور مصباحی آپ کے علم و فضل کو سراہا کرتے اور فرماتے کہ ساحلؔ سہسرامی بڑے کام کے آدمی ہیں ۔ اسی طرح ساحلؔ سہسرامی فرمایا کرتے کہ جب تک شارحِ بخاری اشرفیہ میں ہیں ٬ میں یہاں ہوں ٬ اس کے بعد مجھے یہاں سے رخصت کر دیا جائے گا اور ایسا ہی ہوا ۔ وجہ جو بھی رہی ہو ٬ لیکن ساحلؔ سہسرامی ہر جہت سے اشرفیہ جیسے با وقار ادارے کی زینت بنائے جانے کے لائق استاذ تھے ۔ ایک کامیاب استاذ ٬ با صلاحیت مدرس اور قابل مفتی کی ساری خصوصیات آپ میں موجود تھیں ۔
بالعموم علما طبقہ میں دینی و عصری علوم کا حسنِ امتزاج بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے ۔علامہ ڈاکٹر ساحلؔ سہسرامی دینی و عصری علوم کے ممتاز اسکالر تھے ۔ وہ جہاں جامعہ اشرفیہ مبارک پور جیسی عظیم اور مرکزی درس گاہ کے سند یافتہ عالم و مفتی تھے ٬ وہیں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی جیسی مشہور دانش گاہ کے مایۂ ناز اسکالر تھے ۔ جامعہ اشرفیہ میں درس و تدریس اور فقہ و افتا کے فرائض انجام دینے کے بعد آپ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی تشریف لے گئے اور وہاں سے ایم اے اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ۔ اس کے بعد 2010 ء میں بنگلور تشریف لے گئے ۔ وہاں سے آئی ای ایل ٹی ایس / IELTS یعنی International English Language Testing System کی ڈگری حاصل کی ۔ اس کے بعد کسی ادارے سے منسلک ہو گئے ۔ کچھ سال اندور ( ایم پی ) میں رہے ۔ اس کے بعد عروس البلاد ممبئی تشریف لے گئے ۔ ہمارے یہاں اہلِ علم اور با صلاحیت افراد کی نا قدری عام ہے ۔ ساحلؔ صاحب کو کسی ایک جگہ سکون سے بیٹھ کر کام کرنے کا موقع نہیں ملا ۔ جامعہ اشرفیہ ٬ مبارک پور کے بعد اگر ان کو کوئی مضبوط پلیٹ فارم مل گیا ہوتا تو وہ اپنے علم و تحقیق کا خاطرہ خواہ استعمال کر کے عظیم پیمانے پر دین و دانش کی خدمت انجام دیتے ٬ مگر ہماری جماعتی بے حسی ایسے قیمتی ہیرے کی بالکل قدر نہیں کی ۔ آپ ایک عرصہ تک خانقاہ برکاتیہ ٬ مارہرہ شریف سے شائع ہونے والے سالنامہ ” اہل سنت کی آواز ” کے معاون مدیر بھی رہے ۔ اپنی ذہانت و طباعی ٬ فضل و کمال اور علمی رسوخ کے سبب سربراہِ اہل سنت جناب پروفیسر سید امین میاں برکاتی دام ظلہ العالی اور خانوادۂ برکاتیہ کے دوسرے بزرگوں کے منظورِ نظر رہے ۔ آپ تاج الشریعہ حضرت علامہ مفتی الحاج محمد اختر رضا خان بریلوی علیہ الرحمہ کے مرید و خلیفہ تھے ۔ حضور احسن العلماء مارہروی علیہ الرحمہ سے بیعتِ طلب کا شرف حاصل تھا ۔ حضور تاج الشریعہ کے علاوہ مخدومِ ملت حضرت مولانا سید اویس مصطفیٰ واسطی بلگرامی دام ظلہ العالی سے بھی خلافت حاصل تھی ۔
ڈاکٹر ساحلؔ سہسرامی کی علمی و ادبی اور تحقیقی و تصنیفی خدمات :
اکیسویں صدی کے ہندوستان نے جن نامور مصنفین اور دیدہ ور محققین کو وجود بخشا ہے ٬ ڈاکٹر ساحلؔ سہسرامی ان میں سے ایک تھے ۔ بحیثیتِ مصنف و محقق ان کی حیثیت مسلّم ہے ۔مصنف ہونا اور ہے اور محقق ہونا اور ۔ اللہ رب العزت نے ساحلؔ صاحب کو علم و فضل ٬ ذہانت و فطانت اور شعور و دانائی کے ساتھ تصنیف و تحقیق کا خاص ملکہ عطا فرمایا تھا ۔ آپ نرے مصنف نہیں بلکہ ” محقق مصنف ” تھے ۔ آپ کی جملہ نگارشات تحقیقی شان رکھتی ہیں ۔ تحقیق و تصنیف کے علاوہ آپ تنقید و تدوین اور تقدیم و ترجمہ نگاری کے فن سے بھی آگاہ تھے ۔ تنقید نگاری و مقدمہ نگاری میں آپ کو کمال حاصل تھا ۔ ” صادقؔ سہسرامی : حیات اور شاعری ” میں آپ کی تنقیدی مہارت پوری طرح نکھر کر سامنے آتی ہے ۔ اسی طرح ” فتاویٰ ملک العلماء ” اور ” منبع الانساب ” کا بیش قیمت مقدمہ پڑھ کر بابائے اردو مولوی عبد الحق اور مولانا حبیب الرحمٰن شروانی ( رفیقِ خاص علامہ سید سلیمان اشرف بہاری ) کی تقدیم نگاری کی یاد تازہ ہو جاتی ہے ۔ آپ کی وقیع اور فکر انگیز مقدمہ نویسی اور تراجم نگاری پر مدلل اور مبسوط مقالہ قلم بند کیا جا سکتا ہے اور آپ کی ہمہ جہت دینی ٬ علمی ٬ تصنیفی اور تحقیقی خدمات پر ایم فل یا پی ایچ ڈی کی جا سکتی ہے ۔ زیادہ تفصیل میں نہ جاتے ہوئے ہم ان کی تصنیفی اور تحقیقی حیثیت پر گفتگو کرتے ہیں ۔
تحقیق ، سچ یا حقیقت کی دریافت کا عمل ہے ۔ ڈاکٹر سید عبد اللہ کے بقول : تحقیق کے لغوی معنی کسی شے کی حقیقت کا اثبات ہے ۔ اصطلاحاً یہ ایک ایسے طرزِ مطالعہ کا نام ہے ، جس میں موجودہ مواد کے صحیح یا غلط ہونے کو بعض مسلّمات کی روشنی میں پرکھا جاتا ہے ۔ قاضی عبد الودود کہتے ہیں : تحقیق کسی امر کو اس کی اصلی شکل میں دیکھنے کی کوشش ہے ۔ تحقیق کو آسانی کے لیے عام طور پر دو قسموں میں تقسیم کیا جاتا ہے ۔ اول : سندی تحقیق ٬ دوم : غیر سندی تحقیق ۔ سندی تحقیق وہ ہے جو کسی سند حاصل کرنے کے لیے کی جائے ۔ غیر سندی تحقیق وہ ہے جس کا مقصد سند حاصل کرنا نہ ہو ۔ دونوں قسم کی تحقیق کا مقصد حقائق کی تلاش اور ان کی کھوج کرنا ہوتا ہے ۔ لیکن پہلی قسم کی تحقیق ( سندی ) پابند اور دوسری قسم کی تحقیق ( غیر سندی ) غیر پابند ہوتی ہے ۔ سندی تحقیق میں محقق کی غرض صرف یہ ہوتی ہے کہ اس کو سند مل جائے ۔ ( جیسا کہ عصری جامعات اور یونیورسیٹیوں میں کسی بھی موضوع پر تحقیق کر کے سند حاصل کی جاتی ہے ) ۔ سندی تحقیق میں محقق زیادہ کھل کر رائیں نہیں دیتا اور نہ ہی زیادہ اختلافی بحثوں میں پڑتا ہے ۔ لیکن غیر سندی تحقیق جسے ” غیر پا بند ” کہا گیا ہے ، وہ زیادہ تر آزاد اور غیر جانب دار ہوتی ہے ۔ اس میں محقق بغیر کسی خوف کے اپنی رائے کا اظہار کرتا ہے اور اپنے جمع کیے ہوئے مواد کے پیش نظر نتیجے اخذ کرتا ہے ۔ موضوع کے اعتبار سے تحقیق کی چار قسمیں ہیں :
( ١ ) صحتِ متن کی تحقیق و تدوین ۔
( ٢ ) مصنف یا شاعر کی سوانح اور حالاتِ زندگی کی تحقیق ۔
( ٣ ) لسانی حقیقتوں کی کھوج ، جس میں قدیم زبان ، محاورات ، عروض اور رسم الخط وغیرہ شامل ہے ۔
( ٤ ) معلوم شدہ حقائق یا اصولوں کی تجدید کرنا اور نئے انداز سے پیش کرنا ۔
اس میں یعنی تحقیق کی مذکورہ اقسامِ اربعہ میں بعض کا تعلق صرف تحقیق سے ہے اور بعض کا تحقیق اور تنقید دونوں سے یکساں طور پر منسلک ہیں ۔ مثلاً : صحتِ متن کی تحقیق یا سوانحی حالات کی تلاش اور لسانی حقیقتوں کی جستجو کا براہِ راست کوئی تعلق تنقید سے نہیں ہے ۔ لیکن معلوم شدہ حقائق یا اصولوں کی تجدید ، بغیر تنقید کے ممکن نہیں ہے ۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ بقیہ چیزوں کا تنقید سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے ۔ تنقیدی شعور کے بغیر تحقیق کا کسی صحیح نتیجے پر پہنچنا مشکل ہے ۔ اس طرح تنقید و تحقیق میں ایک ربطِ لازمی ہمیشہ سے رہا ہے ۔
( جدید اردو تنقید : اصول و نظریات ، ص : 419 / 420 ، ناشر : اتر پردیش اردو اکیڈمی ، لکھنؤ )
ایک محقق کو مندرجہ ذیل اوصاف و شرائط کا حامل ہونا چاہیے :
( ١ ) حق گوئی ( ٢ ) بے تعصبی و غیر جانب داری ( ٣ ) محقق ہٹ دھرم اور ضدی نہ ہو ( ٤ ) تحقیق کا مقصد کوئی مادی یا دنیاوی فائدہ نہ ہو ( ٥ ) تحقیق کی طرف رغبت اور ولولہ ہو ( ٦ ) مزاج میں ڈٹ کر محنت کرنے کا جذبہ ہو ( ٧ ) مزاج میں سیمابیت ، بے صبری اور عجلت نہ ہو ( ٨ ) محقق کے مزاج میں اعتدال و توازن ہو ( ٩ ) اس کے اندر علم کا غرور نہ ہو ، بلکہ منکسر المزاج ہو (١٠ ) اخلاقی جرأت کا حامل ہو ( ١١ ) مزاج میں تقلیدی رجحان نہ ہو ، کیوں کہ دین و مذہب میں تقلید جائز ہے اور تحقیق کی شریعت میں تقلید حرام ( ١٢ ) محقق ضعیف الاعتقاد نہ ہو ۔ اساطیر ، توہمات ، خرافات اور فوق الفطرت جیسے امور سے باہر نکلنے کی ہمت رکھتا ہو ( ١٣ ) استفہامی مزاج رکھتا ہو یعنی وہ مشکک ہو ۔ یعنی ہر چیز میں شک اور بحث و کرید کرنے والا ہو ( ١٤ ) اس کے مزاج میں سائنس دانوں جیسی قطعیت ہو ( ١٥ ) بے ترتیب مواد کو منظم کرنے اور ایک منطقی و فلسفی کی طرح اصول و حوالہ جات کو پرکھ کر استخراجِ نتائج کی اس کے اندر صلاحیت ہو ( ١٦ ) قوی الحافظہ ہو ( ١٧ ) سکون و اطمینان کے ساتھ ذہن و دماغ کو کام ( تحقیق ) پر مرکوز رکھنے والا ہو ( ١٨ ) غیر معلوم اشیا کو معلوم کرنے کی لگن اور کرید ہو ( ١٩ ) اردو کے علاوہ دوسری زبانوں سے بھی واقفیت حاصل ہو ( ٢٠ ) محقق تاریخی شعور رکھتا ہو ٬ تاکہ ماضی کے علمی و ادبی ذخیروں سے خاطر خواہ استفادہ کر سکے ( ٢١ ) علومِ سماجیات و نفسیات سے واقفیت ہو تو مفید ہے ( ٢٢ ) ادبی علوم سے واقفیت ضروری ہے ۔ ان میں عروض ، تاریخ گوئی ، علم بیان اور علم قافیہ وغیرہ آتے ہیں ۔ ( ٢٣ ) محقق کو کسی حد تک نقاد کی صفات سے بھی متصف ہونا چاہیے ۔
( تحقیق کا فن ، ص : 51 / 53 ، ناشر : قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان ، دہلی )
ڈاکٹر ساحلؔ سہسرامی کا تعلق ” سندی تحقیق ” اور ” غیر سندی تحقیق ” دونوں سے تھا ۔ آپ نے سندی تحقیق بھی کی ہے اور غیر سندی تحقیق میں بھی اپنے علم و تحقیق کا جوہر دکھایا ہے ۔امام المنطق حضرت علامہ فضلِ حق خیر آبادی کی فکر و شخصیت پر آپ نے بزبانِ عربی تحقیقی مقالہ سپردِ قلم کیا اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ۔ یہ آپ کی سندی تحقیق ہے اور جہاں تک غیر سندی تحقیق کی بات ہے تو اس سلسلے میں آپ کی یہ چند کتابیں مثلاً : ( ۱ ) شاہ حقانی کا اردو ترجمہ و تفسیرِ قرآن : ایک تنقیدی و تحقیقی جائزہ ( ۲ ) مولانا سید غیاث الدین حسن شریفی : حیات اور شاعری ( ۳ ) صادقؔ سہسرامی : حیات اور شاعری ( ۴ ) منبع الانساب خصوصیت کے ساتھ قابلِ ذکر ہیں ۔ ایک محقق کے جو اوصاف اوپر بیان ہوئے ٬ ساحلؔ صاحب ان میں سے بیشتر اوصاف سے متصف تھے ۔ آپ نے صحتِ متن کی بھی تحقیق کی ہے اور مصنف یا شاعر کی سوانحِ حیات اور حالاتِ زندگی کی بھی تحقیق فرمائی ہے ۔ غرض کہ جس زاویۂ نظر سے دیکھا جائے ٬ آپ ایک عظیم محقق کے روپ میں نظر آتے ہیں ۔ اسی طرح آپ کے عظیم مصنف ہونے کے لیے یہی شہادت کافی ہے کہ آپ نے مختلف دینی و علمی اور تحقیقی و ادبی موضوعات پر پچاس سے زائد کتابیں لکھ کر ایک ریکارڈ قائم کیا ۔ ساحلؔ سہسرامی کی مطبوعہ و غیر مطبوعہ کتابوں کی فہرست طویل ہے ۔ مندرجہ ذیل کتابیں آپ کے علم و تحقیق اور فکر و بصیرت کی منہ بولتی تصویر ہیں :
( ۱ ) شاہ حقانی کا اردو ترجمہ و تفسیرِ قرآن : ایک تنقیدی و تحقیقی جائزہ ( ۲ ) خلیفۂ اعلیٰ حضرت مولانا سید غیاث الدین حسن شریفی رضوی : حیات اور شاعری ( ۳ ) منبع الانساب ٬ تڑجمہ و تحقیق و تحشیہ ( ۴ ) خواجۂ ہند کی صوفیانہ شاعری ( ۵ ) صادقؔ سہسرامی : حیات اور شاعری ( ۶ ) حضرت مخدوم سمنانی کے علمی آثار ( ۷ ) قطب الاقطاب دیوان محمد رشید مصطفیٰ عثمانی : حیات و افکار ( ۸ ) متنبّی : ایک خصوصی مطالعہ ( ۹ ) حافظِ ملت ( ۱۰ ) شارحِ بخاری ( ۱۱ ) حکیم الاسلام مفتی مظفر احمد قادری برکاتی : حیات و خدمات ( ۱۲ ) عرفانِ عرب ( ۱۳ ) دائرۂ قادریہ بلگرام شریف ( ۱۴ ) مساهمة العلامه فضل حق خير آبادى فى الدراسات الاسلاميه و الفلسفيه – عربی زبان میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے کی گئی پی ایچ ڈی کا علمی و تحقیقی مقالہ – ( ۱۵ ) جمالیات اور قرآنِ حکیم ( ۱۶ ) فنِ ترجمہ اور قرآنی تراجم ( ۱۸ ) امام اعظم اور علمِ حدیث ( ۱۹ ) فقہ و افتا اور اس کے تقاضے ( ۲۰ ) تصوف : چند وضاحتیں ( ۲۱ ) وہابیہ کی کفری عبارتوں کی تاویلات : ایک تنقیدی جائزہ ( ۲۲ ) مسلمانوں کی علمی معیشت ٬ ہندوستانی تناظر میں ( ۲۳ ) مسلمانوں کے زوال کا نقطۂ آغاز ٬ ہندوستانی تناظر میں ( ۲۴ ) تحفۂ حجاز ( ۲۵ ) مجموعۂ اوراد و اورادِ قادریہ ( ۲۶ ) سلاسلِ صوفیہ تاریخ ولادتِ نبوی ( ۲۷ ) کاشف الاستار ، سند السعادات فى حسن خاتمۃ السادات ، نظم اللآلى في نسب آل علاء الدين العالی / صغروی ساداتِ بلگرام ( ۲۸ ) سلاسل الانوار فى سير الاخيار ( ۲۹ ) وفيات الاعلام ٬ زير تکمیل ( ۳۰ ) اسد العارفین حضرت سید شاہ عینی مارہروى ( ۳۱ ) النور و البهاء فی اسانيد الحديث و سلاسل الاولياء ( ۳۲ ) فتاویٰ ملک العلماء ٬ ترتیب و تدوین ( ۳۳ ) وجود العاشقين ( ۳۴ ) مقالاتِ شارح بخاری ( ۳۵ ) معارفِ سراجِ ملت ( ۳۶ ) حسام الحرمین اور بہار کے علما و مشائخ ( ۳۷ ) مخدومِ جہاں اور امام احمد رضا ( ۳۷ ) معارفِ سراجِ ملت ( ۳۸ ) شدھی تحریک اور صدر الافضل ( ۳۹ ) موجِ ساحلؔ ٬ شعری مجموعہ
( فروغِ رضویات میں فرزندانِ اشرفیہ کی خدمات ملخصاً ٬ ص : 475 )
تلاش و جستجو اور تحقیق و تفحص ان کی سیمابی شخصیت اور بے چین طبیعت کا جزوِ لا ینفک ہے ۔ متعدد قلمی نسخہ جات اور متون کی آپ نے تحقیق کی اور ترجمہ و تحشیہ سے زیور سے ان کو آراستہ کیا ۔ منبع الانساب اور وجود العاشقين کی تحقیق و تدوین اور ترجمہ و تحشیہ آپ کا عظیم الشان علمی کارنامہ ہے ۔ آپ نے زندگی بھر علم و ادب اور تحقیق و تفحّص کا بازار گرم کیے رکھا ۔ جیسا کہ ما قبل میں بیان ہوا کہ آپ کے جملہ کتب و رسائل اور گراں قدر مضامین و مقالات میں تحقیقی رنگ غالب ہے ۔ ایک عظیم عالم و مفتی ٬ مدرس و مفکر ٬ قادر الکلام شاعر اور ادیب و مصنف کے علاوہ ایک ” عظیمِ محقق ” کی حیثیت سے ہندوستان کی علمی و ادبی تاریخ میں آپ کا نام روشن اور زندہ و پائندہ رہے گا ۔ تحقیق ( Research ) جو در اصل غیر معلوم حقائق کو سامنے لانے اور معلوم حقائق کو دلائل و شواہد کی روشنی میں پرکھنے کا نام ہے ٬ اس عمل میں علامہ موصوف طاق تھے ۔ راقم الحروف کی محدود معلومات کے مطابق اکیسویں صدی عیسوی کے طبقۂ علما میں ایسا دیدہ ور محقق و مصنف نظر نہیں آتا ۔ ہاں ! ایک محقق تھے جو دادِ تحقیق دیتے ہوئے بہت جلد جامِ شہادت نوش کر کے راہیِ ملکِ بقا ہوئے ۔ سید محمد اشرف قادری برکاتی ( انکم ٹیکس کمشنر / خانقاہ برکاتیہ ٬ مارہرہ شریف ) آپ کے تحقیقی کارناموں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں :
عزیزم علامہ ساحلؔ سہسرامی ( علیگ ) زمانے کی گرد میں رو پوش شخصیات کو تسلسل کے ساتھ منظرِ عام پر لانے میں مصروف ہیں ۔ انہیں اپنے مذہب ، مسلک اور مشرب سے عقیدت کی حد تک لگاؤ ہے ۔ قادریت کے دلدادہ ، برکاتیت کے فدائی ، اعلیٰ حضرت کے شیدائی اور شیر شاہ سوری کے گہرے نیاز مند ہیں ۔ ان عالی نسبتوں سے وابستہ ہر شے انہیں اپنی سمت کھینچتی ہے اور اس جذب و کشش کو وہ اعتبار دیتے رہتے ہیں ۔
( صادقؔ سہسرامی : حیات اور شاعری کی پشت پر مندرج عبارت )
ڈاکٹر ساحلؔ سہسرامی سے متعلق اہلِ علم کے تاثرات :
ڈاکٹر ساحلؔ سہسرامی اتنے بڑے عالم و مفتی اور محقق و مصنف تھے کہ اکابر علما و مشائخ اور دانش وارنِ ملت نے آپ کے فضل و کمال کا کھلے دل سے اعتراف کیا ہے ۔ شہزادۂ ملک العلماء پروفیسر مختار الدین آرزو ٬ علی گڑھ تحریر فرماتے ہیں :
( 1 ) ساحلؔ سہسرامی کی تلاش و جستجو اور ان کا ذوق و شوق دیکھ کر ان کے لیے دل سے دعا نکلتی ہے ۔ مجھے یقین ہے کہ ان کا علمی سفر جاری رہا تو ان شاء اللہ ایک دن اہم سنی مصنفین میں ان کا شمار ہوگا ۔ پروفیسر مختار الدین آرزو کی یہ پیشین گوئی سچ ثابت ہوئی اور دنیا نے دیکھا کہ ساحلؔ سہسرامی کتنے عظیم مصنف و محقق بن کر علمی و تحقیقی دنیا میں اپنی شناخت بنائی ۔ سچ پوچھیے تو ڈاکٹر ساحلؔ سہسرامی ” سنی بریلوی مصنفین ” میں ایک نمایاں حیثیت کے مالک تھے ۔ انہوں نے اپنی پچاس سالہ زندگی ( ولادت : 19 / ستمبر 1993 ء / وفات : جولائی 2024 ء ) میں درس و تدریس ٬ فتویٰ نویسی ٬ تصنیف و تالیف اور تحقیق و تنقید کی دنیا میں سند باد جہازی کی طرح کام کیا ہے اور علم و تحقیق کے بہت سارے مخفی جزیروں کو ڈھونڈ نکالنے میں کامیاب ہوئے ہیں ۔
( 2 ) صاحب زادہ سید وجاہت رسول قادری ٬ صدر ادارۂ تحقیقاتِ امام احمد رضا ٬ کراچی نے ساحلؔ سہسرامی کی علمی فضیلتوں اور تحریری خوبیوں کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے :
ساحلؔ سہسرامی صاحب ایک اچھے قلم کار اور ادیب و شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ فتویٰ نویسی کا ذوق اور تجربہ رکھتے ہیں ۔ ان کی تحریریں تحقیقی اور مدلل ہوتی ہیں ۔ زبان و بیان میں سلاست و روانی ہے ۔ قلم سیّال ہے ۔ انہیں علمی نظم و ضبط کے ساتھ گفتگو کرنے کا ڈھنگ آتا ہے ۔ شعر و ادب کے ساتھ ساتھ سوانحی ادب کا بھی ستھرا ذوق رکھتے ہیں ۔
( 3 ) پروفیسر سید جمال الدین اسلم ٬ علی گڑھ کے بقول : عزیزم مولانا ارشاد احمد رضوی مصباحی ساحلؔ سہسرامی ( علیگ ) جس موضوع پر بھی لکھتے ہیں ٬ خوب لکھتے ہیں ۔ مستقل موضوعات کی تلاش رہتے ہیں اور جب کوئی موضوع مل جاتا ہے تو تحقیق کا حق ادا کر دیتے ہیں ۔
( 3 ) کہتے ہیں کہ ایک محقق کو اپنی ملکی و مادری زبان کے علاوہ دیگر زبانوں کا بھی عالم ہونا چاہیے اور ایک اسلامی اردو محقق کے لیے عربی و فارسی زبان کا علم تو نہایت ضروری ہے ۔ ڈاکٹر ساحلؔ سہسرامی اردو ٬ عربی اور فارسی زبان و ادب کے رمز آشنا عالم و فاضل تھے ۔ حضرت علامہ فضل حق خیر آبادی کی فکر و شخصیت پر بزبانِ عربی ان کا تحریر کردہ مبسوط علمی و تحقیقی مقالہ ( پی ایچ ڈی ) ان کی عربی دانی کی واضح مثال ہے ۔ عرفانِ عرب اور منبع الانساب کا کامیاب اردو ترجمہ بھی ان کی عربی و فارسی دانی کا واضح ثبوت ہے ۔ خیر الاذکیاء حضرت علامہ محمد احمد مصباحی ( ناظمِ تعلیمات جامعہ اشرفیہ ٬ مبارک پور ) فرماتے ہیں :
موصوف ( ساحلؔ سہسرامی ) عربی و فارسی کی مہارت کے ساتھ کتبِ تصوف کا بھی خاصا مطالعہ رکھتے ہیں ۔
( 4 ) سراج الفقہاء مفتی محمد نظام الدین رضوی برکاتی ( صدر شعبۂ افتا جامعہ اشرفیہ ٬ مبارک پور ) کے بقول : مولانا ساحلؔ سہسرامی ایک اچھے قلم کار ہونے کے ساتھ ساتھ فتویٰ نویسی کا ذوق اور تجربہ بھی رکھتے ہیں ۔
( 5 ) مناظرِ اہل سنت ٬ وارثِ علومِ اعلیٰ حضرت علامہ مفتی محمد مطیع الرحمٰن مضطر رضوی پورنوی دام ظلہ فرماتے ہیں :
عزیز القدر فاضلِ گرامی مولانا ارشاد احمد رضوی مصباحی ساحلؔ سہسرامی ( علیگ ) ایک با صلاحیت مصباحی عالمِ دین ہیں ۔
( 6 ) رئیس التحریر مولانا یٰسین اختر مصباحی کہتے ہیں :
مولانا ساحلؔ سہسرامی مصباحی ( علیگ ) اپنے دورِ طالبِ علمی سے مطالعہ و تحقیق اور تحریر کا اچھا ذوق رکھتے ہیں ۔
( صادقؔ سہسرامی : حیات اور شاعری سے ماخوذ )
( 7 ) پیر زادہ اقبال احمد فاروقی ( ایڈیٹر ماہنامہ جہانِ رضا ٬ لاہور ) ڈاکٹر ساحلؔ سہسرامی کی علمی و ادبی فضیلت کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
علامہ ساحل سہسرامی [ علیگ ] مصباحی فاضل اور اہل سنت کے معروف اور جوان اسکالر ہیں ۔ احقر سے دیرینہ علمی اور مراسلاتی رابطے ہیں ۔ آپ کے قیمتی مضامین ” ماہنامہ جہانِ رضا ٬ لاہور ” کے صفحات کی زینت بن چکے ہیں اور اس فاضلِ اہل سنت کی پھولوں میں گھری ہوئی باتوں سے قارئینِ جہانِ رضا فیضیاب ہوتے رہے ہیں ۔ آپ نے جب امامِ اہل سنت ٬ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ممتاز خلیفہ ملک العلماء حضرت علامہ شاہ ظفر الدین بہاری علیہ الرحمہ کے فتاویٰ مرتب کیے اور اس پر بہت وقیع اور فاضلانہ مقدمہ لکھا تو اہلِ نظر چونک پڑے اور اس جوہرِ قابل کی خدا داد صلاحیتوں کو سراہا ۔ خود راقم الحروف نے اپنے مکتبہ نبویہ ٬ لاہور سے ” فتاویٰ ملک العلماء ” شائع کی جو پاکستان میں بھی ہاتھوں ہاتھ لی گئی ۔ اب تک تین مکتبے پاکستان میں ” فتاویٰ ملک العلماء ” شائع کر چکے ہیں ……… اہلِ سنت کے اس فاضل کی تازہ علمی کاوش ” منبع الانساب مترجم ” دیکھ کر راقم الحروف بہت مسرور ہوا اور دل سے دعائیں نکلیں۔ (ابتدائیہ منبع الانساب مترجم ٬ ص : 16)
فروری 2010 ء تک آپ کی چھوٹی بڑی کل کتابوں کی تعداد پینتیس ( 35 ) پہنچ چکی تھی اور سالِ رواں 2024 ء تک یہ تعداد پچاس ( 50 ) سے متجاوز ہو چکی تھی ۔ اس جہت سے دیکھا جائے تو اپنی مختصر عمر کے لحاظ سے نہ صرف مصباحی علما بلکہ جملہ علما و مشائخِ اہل سنت میں آپ سب سے زیادہ کتابیں تصنیف کرنے والے عالم و مصنف تھے ۔ اپنی تمام تر علمی و ادبی بالا دستیوں کے با وجود سہسرام کی سر زمین شاید ہی اب ایسا کثیر التصانیف عالم و محقق پیدا کر سکے ۔ عمر نے وفا نہ کی اور بہت جلد آپ ہمیں داغِ مفارقت دے گئے ۔ اگر مزید کچھ سال یا اپنی عمرِ طبعی تک بقیدِ حیات رہتے تو کوئی بعید نہیں کہ آپ کی تصانیف کی تعداد سو تک پہنچ جاتی ٬ لیکن ” مرضیِ مولیٰ از ہمہ اولیٰ ” بہت جلد جنت الفردوس کی طرف رختِ سفر باندھ گئے ۔ اللہ رب العالمین آپ کی دینی و ملی اور علمی و تصنیفی خدمات کو شرفِ قبولیت عطا فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ و ارفع مقام بخشے ۔ آمین !