ازقلم : غلام مصطفےٰ نعیمی
روشن مستقبل دہلی
عاصم!
جی ابا جان!
بابا کی جان!
کل رات مجھے ایک ایسی لڑکی کا علم ہوا جو تقوے اور پارسائی میں اپنی مثال آپ ہے۔جس کی باتیں دلوں کی گہرائی تک اثر کرتی ہیں۔جو بولتی ہے تو انصاف کی مہک دور تک محسوس ہوتی ہے۔جس کے لہجے میں مومنانہ یقین کی مضبوطی نظر آتی ہے۔جو حق بات کہنے میں کسی سے مرعوب نہیں ہوتی!
اللّه میرے بابا کی عزتیں اور بڑھائے!
آخر وہ کون خوش نصیب خاتون ہے جس نے اپنی بلند کرداری سے میرے بابا کا دل جیت لیا ہے۔
بچی کی تعریف کرتے دیکھ عاصم نے بڑے رشک کے ساتھ اپنے بابا سے کہا، تو والد بزرگ وار کی آنکھوں میں آرزوؤں کی چمک جگ مگائی اور انہوں نے بڑے اعتماد کے ساتھ کہا:
عاصم!
واقعی تم نے سچ کہا، اس بچی نے یقیناً تمہارے بابا کا دل جیت لیا ہے۔اس لیے میں چاہتا ہوں کہ تم اس نیک خو لڑکی کو اپنا شریک حیات بنا لو۔
الفاظ کے ساتھ باپ کی آرزوؤں کی چمک، آنکھوں کی للک اور دل کی دھنک عاصم پر اچھی طرح ظاہر ہو رہی تھی۔ان کے والد کا یہ روپ بہت کم لوگوں کو دیکھنے ملتا تھا۔آج خوش نصیبی سے عاصم اپنے بابا جان کے چہرے پر مسرت کے وہ رنگ دیکھ رہے تھے جو ان کی مصروف زندگی اور گراں قدر ذمہ داریوں کی وجہ سے کبھی کبھار نظر آتے تھے۔
ابا جان!
آپ پیغام نکاح بھیج دیں میں اس خاتون کو اپنی زندگی کا حصہ بنانے کے لیے دل وجان سے تیار ہوں!
سعادت مند بیٹے کی فرماں برداری سے والد کی مثالی تربیت ظاہر ہو رہی تھی۔ایک طرف والد نے بغیر دیکھے بچی کو پسند کر لیا تو دوسری جانب بیٹے نے والد کی خواہش کا دل وجان سے احترام کیا۔تسلیم واحترام کے یہ مناظر دیکھ چشم فلک بھی انسانی عظمتوں کا قائل ہوگیا۔
مت سہل اسے جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
آپ جانتے ہیں کہ عاصم کے بابا کون تھے؟
عاصم کے بابا کوئی عام انسان نہیں بل کہ مراد رسول، صاحب منبر محراب خلیفہ دوم سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ(متوفی 24ھ) تھے۔
وہ نیک صفت خاتون جسے انہوں نے اپنے بیٹے حضرت عاصم کی زوجیت کے لیے پسند فرمایا، امیر المومنین کے علم میں تب آئیں جب ایک رات مدینے کی گلیوں میں گشت کرتے ہوئے آپ ایک مکان کے قریب سے گزرے، جہاں ایک ماں اپنی بیٹی کو آواز لگاتے ہوئے کہہ رہی تھی:
"ألا تمذقين لبنك فقد أصبحت”
"بیٹی ! تم نے اب تک دودھ میں پانی نہیں ملایا، صبح ہونے کو ہے۔”
ماں کی بات سن کر اس نیک بخت لڑکی نے دل چھو لینے والا جواب دیا:
"کيف أمذق وقد نهى أمير المؤمنين عن المذق۔”
"امی جان! میں پانی کیسے ملاؤں؟ امیر المومنین نے دودھ میں پانی ملانے سے منع کیا ہوا ہے۔”
بچی کا جواب سن کر سیدنا عمر کے بڑھتے ہوئے قدم رک گیے۔ماں بیٹی کا یہ مکالمہ خاصا دل چسپ لگا اس لیے آپ نے دھیان اسی طرف لگا دیا۔
اُدھر امیر المومنین کی موجودگی سے انجان ماں نے بچی کی بات سن کر قدرے لاپرواہی کے ساتھ کہا:
"قد مذق الناس فامذقي فما يدري أمير المؤمنين۔”
"بیٹی ! اور لوگ بھی تو پانی ملاتے ہیں، تم بھی ملالو، رات کے اس اندھیرے میں امیرالمومنین کو ہمارے کام کی کیا خبر؟
ماں کی بات سن کر بیٹی نے بڑا ایمان افروز جواب دیا:
"إن كان عمر لا يعلم فإله عمر يعلم۔”
"امی جان اگر حضرت عمر کو خبر نہیں ہے، تو کیا ہوا، عمر کا رب تو سب جانتا ہے۔”
یہی وہ ایمان افروز جواب تھا جس نے سیدنا عمر نے سینے کی گہرائیوں تک اثر کیا۔اس بچی کی محبت آپ کے دل میں بیٹھتی چلی گئی۔بغیر اس لڑکی کو دیکھے۔بغیر اس کے خاندان کو جانے آپ نے فیصلہ کر لیا کہ اس نیک بخت لڑکی کو اپنے بیٹے کی دلہن بنائیں گے۔
یہی سوچ کر آپ نے اپنے شہزادے حضرت عاصم کو بلایا اور ان سے کہا:
"يا بني اذهب إلى موضع كذا وكذا فاسأل عن الجارية ووصفها له۔”
"جان پدر! فلاں جگہ جا کر معلوم کرو کہ یہ لڑکی کون ہے؟
ابا جان کی خواہش سن کر حضرت عاصم نے لڑکی کے بارے میں معلومات حاصل کیں اور آکر اپنے بابا جان کو ساری تفصیلات سے آگاہ کیا۔آپ نے اپنے بیٹے سے فرمایا:
"یا بني فتزوجها فما أحراها أن تأتي بفارس يسود العرب۔”
"فرزند عزیز! تم اس نیک سیرت لڑکی سے نکاح کر لو، وہ بچی یقیناً اس لائق ہے کہ اس کے بطن سے ایک ایسا شہ سوار پیدا ہو، جو تمام عرب کی قیادت کرے۔”
حضرت عاصم نے بصد شوق بابا جان کی خواہش کا احترام کیا۔اس طرح محض اپنی راست گوئی اور بلند کرداری کی بدولت ایک عام سے گھر لڑکی کاشانہ خلافت کی بہو بن کر فاروق اعظم جیسی عظیم الشان ہستی کے گھر کا حصہ بن گئی۔
(ماخوذ : سيرة عمر بن عبد العزيز لعبد الله بن عبد الحكم، ص:24)
_فراست فاروقی نے یقیناً مستقبل کو دیکھ لیا تھا۔اسی لڑکی کی دوسری نسل میں حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ(61_101ھ) جیسا صاحب شرف بیٹا پیدا ہوا۔جس کی عدل پروری اور انصاف پسندی نے زمانے بھر میں خلافت راشدہ کی یاد تازہ کر دی۔سلطنت اسلامیہ کی سرحدوں کو ایک پھر سے وسعت ملی اور حضرت عمر کی یہ پیشن گوئی؛
"اس بچی کے بطن سے ایسا بیٹا پیدا ہوگا جو سارے عرب کی قیادت کرے گا۔”
پوری ہوئی، حضرت عمر بن عبدالعزیز نے عرب کے بگڑے ہوئے معاشرے کو پھر سے سنوارا۔لوٹ کھسوٹ کا زور توڑا۔بیت المال کو دوبارہ قومی امانت بنایا۔لوگوں کا مال ہڑپنے والے خائن وزیروں سے پائی پائی وصول کی۔نظام احتساب کے خوف سے خائن امیروں نے رات کی تنہائیوں میں مال سڑکوں پر چھوڑ دئے۔ہر طرف عدل و انصاف کا شہرہ ہوا۔حق دار کو حق ملنے لگا۔ایک وقت ایسا بھی آیا کہ سلطنت اسلامیہ میں لوگ صدقہ وخیرات کا مال لیے پھرتے تھے مگر کوئی لینے والا نہیں ملتا تھا۔بنو امیہ کے ساتھ ساتھ بنو ہاشم بھی حضرت عمر بن عبدالعزیز کی قیادت پر فخر فرماتے تھے۔اس طرح ایک بار پھر زبان فاروقی کی صداقت ان کی خدا داد بصیرت کو منوا چکی تھی:
ہاں تیری بصیرت پہ ہے خالق کی گواہی
حامی تیری تجویز کا، الہام ہے فاروق
مگر کتنی عجیب بات ہے کہ دوسروں کے عطیات پر گزر بسر کرنے والے لوگ، دین کے نام پر دنیا بنانے والے افراد، معمولی سی منفعت کی خاطر سگان دنیا کے دروازوں پر کشکول گدائی لئے پھرنے والے بندگان سیم و زر آج فراست فاروقی پر سوال اٹھاتے ہیں۔
کاش!
ان کے پاس دیکھنے والی آنکھ اور محسوس کرنے والا دل ہوتا تو انہیں عظمت فاروقی کے میناروں کی بلندی دکھائی پڑتی۔
جس عمر کی رائے کو بارہا پروردگار عالم نے سند قبولیت سے نوازا ہو۔جس کی دور اندیشیوں پر کتنی ہی بار وقت نے صداقت کی مہر لگائی ہو۔جس کے فیصلوں نے امت مسلمہ کو عرب سے عجم تک عزتوں سے سرفراز کیا ہو، اس کی فہم وفراست پر سوال اٹھانا اول درجے کی محرومی اور بد بختی ہے۔
کاش !!
انہیں احساس ہوتا کہ عمر ایک سلطان نہیں مراد رسول کا نام ہے اور رسول اللہﷺ کی چاہت پر سوال اٹھانا وفاداروں کا نہیں غداروں کا کام ہے، اور جہنم ایسے اعدا کی راہ بڑی شدت سے دیکھ رہا ہے:
وہ عمر جس کے اعدا پہ شیدا سقر
اس خدا دوست حضرت پہ لاکھوں سلام