(تحفظِ ناموس رسالتﷺ کے لیے مشائخِ چشتیہ نے "حسام الحرمین” کی تائید کی… توہینِ رسالت پر مبنی عبارتوں سے بیزاری ظاہر کی… حق برملا کہا….آج بھی توہینِ رسالت کے مرتکب گروہ ان مشائخ سے لرزہ براندام ہیں…)
تحریر: غلام مصطفیٰ رضوی
نوری مشن مالیگاؤں
سلاسلِ طریقت میں سلسلۂ چشتیہ بڑا معروف و مقبول اور مشہور ہے۔ جس میں بڑے بڑے اولیا، صاحبانِ دل، اور علم و عرفان کے شناور گزرے ہیں۔ مشائخِ چشت نے جہاں طریقِ نبوی کی اشاعت کی اور تزکیۂ باطن و اصلاحِ احوال کا مبارک فریضہ انجام دیا وہیں عقائدِ اسلامی کی حفاظت و صیانت نیز شریعت کی بقا کے لیے بھی جدوجہد کی اور اپنے اپنے دور میں دین کے مقابل پیدا شدہ فتنوں کا سدِ باب کیا۔ خانقاہوں اور زاویوں سے نکل کر عقائد حقہ کی اشاعت بھی کی اور باطل فتنوں کی سرکوبی کر کے رسمِ شبیری ادا کی۔
ملک ہندوستان میں مشائخ چشت میں سب سے نمایاں و ممتاز ذات سلطان الہند حضرت خواجہ غریب نواز معین الحق والدین علیہ الرحمہ (وصال۶۲۷ھ/۱۲۳۶ء) کی ہے۔ آپ علم و عرفان کے کئی چشموں سے سیراب تھے۔ بغداد کے دریائے معرفت کے شناور اور اپنے عہد کے اولیاے کرام کے تاج ور تھے۔ اعلیٰ حضرت؛ غوث اعظم علیہ الرحمۃ کے حوالے سے فرماتے ہیں ؎
مزرع چشت بخارا و عراق و اجمیر
کون سی کشت پہ برسا نہیں جھالا تیرا
اعلیٰ حضرت مثالی شخصیت:
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری برکاتی محدث بریلوی (وصال۱۳۴۰ھ/۱۹۲۱ء) علم و فضل کے آفتاب اور معرفت و طریقت کے ماہ تاب تھے۔آپ نے دین کی حفاظت و صیانت کی خاطر ہر اس جدید نظریے کی تردید کی جس سے اسلامی عقائد و احکام کی توہین ہوتی تھی۔ آپ نے علم و فضل کی ہر شاخ پر ایمان و ایقان کی پختگی کے گل و لالہ کھلائے اور شریعت و طریقت کے مقامِ بلند کی طرف اسلامی اُصولوں کی روشنی میں رہنمائی کی۔ آپ کی فکرو بصیرت فکرِ حجازی سے فیض یاب تھی۔ یہی سبب تھا کہ گردشِ ایام کی آندھیاں آپ کے قدموں کو متزلزل نہ کرسکیں اور زمانی تغیرات کا کوئی جھونکا آپ کو اپنے مقام سے ہِلا نہ سکا۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا نے اسلاف کے پاکیزہ مسلک کی نمائندگی کی اور دل و نگاہ کی صفائی و تزکیۂ باطن کے لیے تاعمر کوشاں رہے۔ عقائد کے رُخ سے آپ کا قلمی کام نمایاں ہے جس پر سیکڑوں تصانیف شاہد عادل ہیں ؎
دین ہو، فلسفہ ہو، فقر ہو، سلطانی ہو
ہوتے ہیں پختہ عقائد کی بنا پر تعمیر
حرف اس قوم کا بے سوز، عمل زار و زبوں
ہو گیا پختہ عقائد سے تہی جس کا ضمیر
(اقبالؔ)
عظیم محقق اور حسام الحرمین:
اعلیٰ حضرت نے جو کچھ لکھا زمانی تقاضوں اور ضرورت کے تحت لکھا، یہی سبب ہے کہ آپ کی تحریریں نوع بہ نوع موضوعات کا احاطہ کرتی ہیں اور اسلافِ کرام کے علم و فضل کی آئینہ دار ہیں۔ صدیوں کی کاوشات کا عطر مجموعہ آپ کی تصانیف کی سطر سطر سے مہکتا ہے۔ تحقیق کی بزم آراستہ نظر آتی ہے اور ہر تصنیف موضوع کی مناسبت سے عدیم النظیر ہے۔ موضوع سے متعلق تمام گوشوں پر مواد فراہم کر دیتے ہیں۔ آپ نے جو کچھ لکھا علم و تحقیق کے بعد لکھا بلکہ جن افراد یا سربراہانِ جماعت پر شریعت کا کوئی حکم عائد کیا تو قائل پر صورتِ حال واضح کی اور توبہ پر مائل کیا لیکن! اس کے باوجود گستاخانہ عبارتوں کو حق و صحیح تسلیم کرنے والوں سے متعلق ’’حسام الحرمین علیٰ منحرالکفروالمین‘‘ (۱۳۲۴ھ)کے نام سے علماے حرمین کی تصدیقات جمع کیں اور مع عربی متن کے اردو میں ان کی اشاعت بھی کی۔ جس میں ۳۳؍اکابر علماے حرمین کی تصدیقات اس بابت ہیں کہ برصغیر میں نئے پیدا شدہ عقائد کے بانیان؛ جنھوں نے اپنی کتابوں میں رسول گرامی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی شانِ اقدس میں توہین و بے ادبی سے پُر عبارتیں لکھیں، اور ان میں تاویل کی گنجائش بھی نہیں وہ ازروے شرع اسلام سے خارج ہیں۔
عقیدہ کی اہمیت:
علامہ سید احمد سعید کاظمی تحریر فرماتے ہیں: ’’بنی نوع انسان کو ایک مرکز پر لانے کا کوئی طریقہ اس سے بہتر نہیں ہو سکتا کہ انھیں معبود واحد کی وحدانیت کے اعتقادی مرکز پر جمع کر دیا جائے۔ لیکن فطرتِ انسانی محض عقل کی روشنی میں اس مرکز وحدت تک پہنچنے میں کسی ایسی دلیل کی محتاج تھی جو صحیح معنی میں اسے منزل مقصود تک پہنچا دے اور تمام بنی نوع انسان کے لیے ایسی کامل اور قطعی دلیل حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی ہے۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہیے کہ رسالت-توحید کی دلیل ہے……قربِ الٰہی کا ذریعہ صرف قربِ مصطفائی ہے اور توحید کا وسیلہ رسالت ہے۔ ‘‘
(ماہ نامہ السعید مئی جون۱۹۶۴ء، آئینہ حق و باطل، علامہ غلام نصیر الدین چشتی گولڑوی، جماعت اہلسنّت شیخوپورہ۱۹۹۴ء ، ص۵۔۶)
جب بھی عقیدۂ توحید و رسالت کی توہین کی کوشش کی گئی مشائخ نے خانقاہوں سے نکل کر رسم شبیری ادا کی اور گستاخ کو کیفرِ کردار تک پہنچا کر دین پناہ کا کام انجام دیا اور اسلامی سرحدوں کی نگہ بانی کی۔ عقائد کے تحفظ میں اہم کردار ادا کیا۔ اس رُخ سے علما و مشائخ اور زاویہ نشینوں کی ایک روشن تاریخ موجود ہے۔
غیر اسلامی عقائد کی یورش اور ان کا سد باب:
انگریز نے تجارت کی غرض سے ہندوستان کا رُخ کیا۔ اپنی سازشی فطرت کے باعث تخریب کاری کی۔ مذہبی عقائد میں جدید نظریات پیدا کرنے کی تگ و دو کی۔ علما خریدے۔ نئے نظریات کے حاملین کی تائید و سرپرستی و صیانت کی۔ وہابی نظریات کو فروغ دیا۔ فرقۂ وہابیہ سے متاثر افراد کو وظائف دے کر ہم نوا بنایا۔ وہابی عقائد کی ترجمانی میں مولوی اسماعیل دہلوی نے کتاب ’’تقویۃالایمان‘‘ لکھی، جس میں توحید کے زعم میں رسالت کی عظمتوں کو نشانہ بنایا۔ اسی سے متاثر ہونے والے علما میں مولوی قاسم نانوتوی دیوبندی نے ’’تحذیر الناس‘‘ لکھ کر اور نئے نبی کا امکان بتا کر "قادیانیت” کو غذا مہیا کی۔ بعد کو مرزا غلام احمد قادیانی نے دعویِ نبوت کیا۔ مولوی رشید احمد گنگوہی دیوبندی نے علم غیب مصطفیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا انکار کیا، اللہ کریم کے لیے کذب (جھوٹ) کا امکان تراشا، (ملاحظہ کیجیے: براہین قاطعہ)ان کے شاگرد مولوی خلیل احمد انبیٹھوی دیوبندی نے اس کی تائید کی نیز میلادِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو بدعت سے تعبیر کیا۔ مولوی اشرف علی تھانوی دیوبندی نے’’حفظ الایمان‘‘ میں شانِ رسالت میں عیب جوئی کی اور علم غیب رسول کی نفی کی جب کہ شیطان و ملک الموت کے لیے غیب تسلیم کیا۔ اسی طرح کئی نئے عقائد کی داغ بیل پڑی۔ جن کی تردید اس زمانے کے اکابر علما نے تحریراً و تقریراً کی اور ان کی اصلاح کی کوششیں کیں۔ ایسے علما جنھوں نے مذکورہ عقائد کے حاملین کو رجوع کے لیے متوجہ کیا ان میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا کا نام نمایاں ہے۔ ایک مدت تک تنبیہ و اصلاح کے لیے کاوش کی اور جب رجوع و توبہ کی کوششیں بار آور نہ ہوئیں تو شریعت کا حکم کہہ سنایا۔ توہین رسالت پر مبنی عبارتوں پر حکم کفر عائد کیا۔ حسام الحرمین میں یہ احکام تحقیق و صداقت کے ساتھ درج ہیں جن پر ۳۳؍علماے حرمین کی تصدیقات بھی ہیں۔
(بقیہ آئندہ….)
gmrazvi92@gmail.com