تحریر: رضوی سلیم شہزاد،مالیگاؤں
- 25/ صفر المظفر 1446ء بروز سنیچر کو 106 سالہ عرسِ اعلیٰحضرت کی مناسبت سے مسلمانانِ ہند کے مطالعہ کے ذوق کو پروان چڑھانے والی مختصر تحریر۔
ہندوستان کی وہ عظیم خانقاہیں اور اُن سے منسلک علماء و مشائخ جنہوں نے فتنہء ارتداد کے وقت اس کے خلاف متحد ہوکر میدانِ عمل میں اپنی کارگزاریاں پیش کیں، اِن میں خانقاہِ بدایوں، خانقاہِ کچھوچہ، خانقاہِ مارہرہ، بریلی شریف، اور پیلی بھیت کا شمار نمایاں طور پر ہوتا ہے جن سے منسلک مشائخین، علماء اور زعماء نے آزادی سے قبل ہندو مسلم اتحاد کی آندھی کے نتیجے میں اُبھری فتنہء ارتداد کی سازش بنام "شُدّھی تحریک” کا قلع قمع کرنے میں اپنے دن اور رات ایک کردیئے جنہوں نے بھارت کے مختلف علاقوں میں دولت و طاقت کے بل بوتے پر نیز انگریزی اقتدار سے حمایت پاکر مسلمانوں کو اسلام سے پھیرنے کی منصوبہ بند سازشوں کا منہ توڑ جواب دیا اور لاکھوں مسلمانوں کو توحید و رسالت کا بھولا ہوا سبق یاد دلا کر انہیں دوبارہ دائرہ اسلام میں داخل کیا۔ "شدھی تحریک” کے خلاف سینہ سِپر ہونے والی ماضی کی ان اسلامی تنظیموں میں جماعت رضائے مصطفیٰ بریلی کے علاوہ جماعتِ اشرفیہ کچھوچہ، انجمن خدام الصوفیہ سیالکوٹ پنجاب اور مرکزی جمعیت تبلیغِ اسلام انبالہ پنجاب کے نام قابلِ ذکر ہیں۔
موجودہ دور کے مسلمان ماضی قریب کی اپنی ان سنہری تاریخوں اور مشرکین کی سازشوں سے یا تو نابلد ہیں یا پھر اُنہیں یہ جاننے کا شوق ہی نہیں کہ اُن کے اسلاف نے فتنہء ارتداد کے زمانے میں کیسی عظیم قربانیاں دی ہیں اور ہندی مسلمانوں کے دین و ایمان کو بچایا ہے۔ ہندوستان میں آج جو اسلام اور تعلیماتِ اسلامی کی بہاریں قائم ہیں اور تعلیمات اسلام کا خالص پن دکھائی دیتا ہے وہ انہی خانقاہوں اور علماء و مشائخ کی قربانیوں اور محنتوں کا ثمرہ ہے۔ اسی طرح ہندوستان میں آج جو گئو کشی کے نام پر مسلمانوں کی مآب لنچنگ اور بھگوا لَو ٹریپ کی آڑ میں نوجوان مسلم لڑکیوں کو ہندو بنانے کا اعلان بھگوا دھاری شدت پسندوں کی جانب سے کیا جاتا رہا ہے، مسلمانوں کے خلاف گودی میڈیا کی جو منصوبہ بند محاذ آرائیاں ہیں، ان سب کی جڑیں اُسی "شُدّھی تحریک” سے کہیں نہ کہیں جاملتی ہیں جس پر بند باندھنے کا کام اُس وقت کے علماء و مشائخ اور عمائدین نے کیا تھا۔ جو آج حکومت وقت کی شہ پر یا چشم پوشی پر دوبارہ سر اُبھار رہی ہیں۔
آزادی سے قبل مختلف ہندو سماجی و مذہبی رہنماؤں اور پنڈتوں کے ذریعہ قائم کی گئی مختلف جماعتوں اور اداروں نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بڑے پیمانے پر سازشیں رچیں اور انگریزی حکومت کی مدد سے مسلمانوں کو دوبارہ ہندو بنانے کا آغاز کیا۔ اس کی ابتدا "سوامی دیانند سرسوتی” سے ہوتی ہے جس نے انقلاب 1857ء کے بعد مسلم حکمرانوں سے مکمل آزادی کے نام پر انگریزی سازش کا شکار ہوا۔ چونکہ غدر 1857ء کا انقلاب بھارت کے ہندوؤں اور مسلمانوں نے ایک ساتھ مل کر برپا کیا تھا اور انگریزوں سے آزادی کا صور پھونکا تھا جس سے سلطنتِ برطانیہ کی چولیں ہل گئی تھیں۔ اسی لیے انگریزوں نے سازش کرکے مسلم حکمرانوں کے خلاف ہندو عہدیداروں اور انتظامی افسروں کو بھڑکایا اور مسلمانوں کے خلاف سوامی دیانند سرسوتی جیسے افراد کی متعصب اور جارحانہ تحریکات کو ہوا دی۔ جس سے شہ پاکر سوامی دیانند سرسوتی نے سن عیسوی 1875ء میں ممبئی میں "آریا سماج” کی بنیاد رکھی۔ جس کا پہلا باضابطہ اجلاس 24 جون 1877ء کو لاہور میں ہوا، اس اجلاس میں اس تنظیم کو ہندوستان بھر میں سرگرم کرنے کے لیے متعدد تجاویز اور قرار دادیں پاس کی گئیں جن کے مطابق چونکہ مسلمانوں کے آباء و اجداد بت پرست مشرک تھے اس لیے اُنہیں دوبارہ پاک و صاف کرکے (شُدّھ کرکے) ہندو بنایا جائے۔ سوامی دیانند سرسوتی نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت اور تشدد کو ہوا دینے کے لیے "ستّیارتھ پَرکاش” نامی کتاب لکھی جس میں قرآنِ حکیم اور احادیثِ نبوی کو خاص طور پر نشانہ بنایا گیا۔ 1883ء میں سوامی دیانند سرسوتی کی موت کے بعد اس کا جانشین "سوامی شرَدّھانند” (م. 1926ء) ہوا جس نے مسلمانانِ ہند کو ہندو بنانے کی متعصبانہ و جارحانہ مہم بنام "شُدّھی کَرن” کا منظم آغاز کیا۔۔۔۔۔
ارتداد و گمراہی کی اس تحریک سے دہلی، پنجاب و ہریانہ، متھرا، آگرہ، جھانسی، اَلوَر اور بھرت پور وغیرہ کے مختلف علاقے بہت زیادہ متاثر ہوئے اور ہزارہا ہزار سادہ لوح و غربت زدہ مسلمان دائرہء اسلام سے نکل کر ہندوؤں کی آغوش میں چلے گئے۔ اسی فتنہء ارتداد بنام "شدھی تحریک” کی روک تھام کے لئے اُس زمانے کی معروف خانقاہوں کے علماء و مشائخین متحد ہوکر میدانِ عمل میں آئے جن میں خانقاہِ بدایوں، خانقاہِ مارہرہ، خانقاہِ کچھوچہ، خانقاہِ بریلی اور خانقاہِ پیلی بھیت کے علماء و مشائخ سرِ فہرست ہیں۔
اعلیٰحضرت امام احمد رضا علیہ الرحمۃ الرضوان کا وصال سن عیسوی 1921ء میں ہوا، وہ مشرکین کی ان چالوں کو بخوبی بھانپ رہے تھے، یہی وجہ تھی کہ جب "سوامی شردھانند” کی "شدھی تحریک” عملاً زور پکڑنے لگی تو اعلیٰحضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ والرضوان نے اپنے وصال سے ایک سال قبل اس تحریکِ فتنہء ارتداد کی بیخ کُنی کے لیے سن عیسوی 1920ء میں "جماعت رضائے مصطفیٰ” کی بنیاد رکھی۔ اور جب قضائے الہی سے سن عیسوی 1921ء میں اعلیٰحضرت امام احمد رضا اپنے خالقِ حقیقی کی طرف لوٹ گئے تو اُن کے اس مشن "جماعت رضائے مصطفیٰ” کو اُن کے صاحبزادگان حُجۃ الاسلام، مولانا حامد رضا خان اور مفتیِ اعظم مولانا مصطفیٰ رضا خان نے آگے بڑھایا۔ مسلمانوں کو دائرہء اسلام سے پھیر کر مشرک اور مرتد بنانے کی شردھانند سرسوتی کی "شدھی تحریک” کے خلاف منصوبہ بندی و اقدام کی خاطر علماء و مشائخ کا پہلا بڑا اجلاس سن عیسوی 1923ء میں بریلی شریف کی "مسجد بی بی جی” میں منعقد کیا گیا۔ اس اجلاس میں شرکت اور خطاب کرنے والے علماء و مشائخین میں 1)صدر الافاضل، مولانا نعیم الدین مرادآبادی، 2)مولانا حسنین رضا بریلوی، 3)مولانا رحم الہی منگلوری سہارنپوری، 4)مولانا عبدالعلیم صدیقی میرٹھی، 5)مفتی عبدالباقی برہان الحق رضوی جبلپوری، 6)مولانا ابرار حسن تِلہری شاہجہاں پوری، 7)مولانا سید غلام قطب الدین سہسوانی، 8)مولانا حشمت علی خان پیلی بھیتی، 9)مولانا سید ایوب علی رضوی بریلوی، 10)نواب وحید احمد خان بریلوی، 11)منشی فدا یار خان بریلوی اور 12)اساتذۂ دارالعلوم منظرِ اسلام بریلی شریف و عمائدین و معززین بریلی کے نام شامل ہیں۔ بعد میں انہیں حضرات کی قیادت و رہنمائی میں بھارت کے اُن علاقوں میں علماء کرام کے وفود روانہ کئے گئے جن علاقوں میں ہزاروں لاکھوں مسلمان فتنہء ارتداد کا شکار ہوکر دائرہ اسلام سے خارج ہورہے تھے۔ بریلی و کچھوچہ سے تعلق رکھنے والے ان علماء و عمائدین میں صدر الشریعہ مولانا امجد علی اعظمی، محدثِ اعظم ہند مولانا سید محمد اشرفی کچھوچھوی، مولانا مختار احمد صدیقی میرٹھی، مولانا ابولبرکات سید احمد اَلوَری ثم لاہوری، شیر بیشہء اہلسنت مولانا حشمت علی لکھنوی وغیرہ شامل ہیں۔
27/جنوری 1923ء کو بریلی سے روانہ ہونے والے دس رکنی علماء کرام کے تبلیغی و دعوَتی وفد کی قیادت اعلیٰحضرت کے چھوٹے صاحبزادے مفتی اعظم مولانا مصطفی رضا خان قادری بریلوی نے فرمائی۔ اضلاعِ میرٹھ و بلند شہر و علی گڑھ کا دورہ کرتے ہوئے جب یہ وفد آگرہ پہنچا جہاں سوامی شردھانند نے "شدھی بھارت سبھا” قائم کرکے آگرہ کو اپنا ہیڈ کوارٹر بنا رکھا تھا تو مسلمانانِ آگرہ نے جماعت رضائے مصطفیٰ بریلی کا والہانہ اور پُرجوش استقبال کیا جس کی ایک مطبوعہ رپورٹ یہ ہے: "وفدِ اسلام دورہ کرتا ہوا آگرہ پہنچا، یہاں کے مفتیِ شہر حضرت مولانا مولوی سید محمد دیدار علی صاحب (الوَری) اور اُن کے فرزند ارجمند جناب مولانا مولوی مفتی سید احمد صاحب نے اس وفد کا کمالِ احترام کیا اور اس کی اعانت میں بہت سرگرمی کے ساتھ حصہ لیتے رہے۔ان کی محنتوں اور مخلصانہ کوششوں نے وفد کو اپنی ابتدائی حالت میں بڑی تقویت پہنچائی۔انہیں کے اثر سے شہر کے باشندوں نے وفد کے ساتھ بہت ہمدردی کی جن میں جناب حاجی ولی اللہ خان صاحب اور جناب منشی وارث علی خان صاحب خصوصیت کے ساتھ قابلِ ذکر ہیں۔ (روداد جماعت رضائے مصطفی، ص11 سال 1923ء) اسی طرح 3/فروری 1923ء کو دبدبہء سکندری میں وفد کی جو رپورٹ شائع ہوئی وہ اس طرح ہے: 2/فروری 1923ء بروز جمعہ جامع مسجد آگرہ میں یہ وفس پہنچا اور اس نے مسلمانانِ آگرہ کو ہوشیار کیا۔ مجمع بہت کثیر تھا، اجزائے وفد میں اول دو صاحبوں نے نہایت خوش الحانی کے ساتھ نعت شریف پڑھی، پھر مفتیِ آگرہ علامہ سید ابو محمد دیدار علی صاحب الوَری نے مختصر وفد کا وِرود اور اغراض و مقاصد بیان فرماکر استاذ العلماء مولانا حافظ نعیم الدین مرادآبادی صاحب کو وعظ کے پیش فرمایا۔ اُنہوں نے دینِ اسلام کی عظمت و شان کا ایسا نقشہ کھینچا جس سے تمام مجمع ایک غیر معمولی اثر کے ساتھ متاثر نظر آتا تھا، کلمات جادو کی طرح اثر کرتے تھے، سامعین کی حالت دَم بھر میں بدل گئی اور جلسہ تڑپ اُٹھا، سننے والے روتے روتے بے حال ہوگئے، مسلمانوں نے شریعت کی فرمانبرداری کے عہد کئے اور گناہوں سے بآوازِ بلند تائب ہوئے۔ایک عجیب سا سماں تھا جو موجود تھے، توبہ کررہے تھے اور اُن کے قلوب میں اسلامی محبت موجیں ماررہی تھیں، راجپوتوں کے ساتھ ہمدردی کا ولولہ ہر دل میں پیدا ہوگیا تھا۔۔۔الخ. واضح رہے کہ 1931ء کی برطانوی ہندوستان کی مردم شماری کے مطابق اُس وقت 2.1 ملین راجپوت مسلمان بھارت میں آباد تھے اور یہی راجپوت مسلمان اُن علاقوں میں "شدھی تحریک” کا اصل ٹارگیٹ تھے۔
کچھوچہ و مارہرہ سے منسلک علماء و عمائدین میں سید شاہ اسمعیل حسن عرف شاہ جی میاں مارہروی، سید جماعت علی شاہ سیالکوٹی، سید شاہ علی حسین اشرفی کچھوچھوی کی سرپرستی میں ان کے مختلف وفود اور مبلغین نے جماعت رضائے مصطفی بریلی شریف کے ساتھ تعاؤن کرتے ہوئے مَلکانہ راج پوتوں کے علاقوں میں گھوم گھوم کر اور اپنی جان جوکھم میں ڈال کر ہزاروں لاکھوں مسلمانوں کو ارتداد سے محفوظ رکھا اور ہزاروں وہ مسلمان جو ارتداد کا شکار ہوچکے تھے اُنہیں دوبارہ کلمہ پڑھا کر مشرف باسلام کیا۔ اسی طرح علماء بدایوں میں مولانا عبدالماجد قادری بدایونی، مولانا عبدالحامد بدایونی، مولانا عبدالصمد مقتدری بدایونی وغیرہ تحریک ارتداد کے خلاف میدان عمل میں سرگرم رہے اور تحفظ و دفاع اسلام کی مخلصانہ خدمات انجام دیں۔ ان علماء و مشائخ نے اپنے تبلیغی وفود کے ذریعہ متاثرہ علاقوں میں جگہ جگہ مدارس و مکاتب کا قیام کیا، مسلمانوں کو اسلام پر قائم رہ کر اسلامی ہدایات و تعلیمات پر عمل کرنے کی ترغیب دی اور گمراہ و مرتد ہوجانے والوں کو دائرہء اسلام میں داخل کرنے کی حکیمانہ و داعیانہ کوششیں کیں۔ اکابرین اسلام کی یہ تمام تر کاوشیں اور اُن کے ثمرات اُس وقت کی مختلف تاریخی دستاویزات جیسے ہفت روزہ دبدبہء سکندری رامپور، سہ ماہی اقبال لاہور، روداد جماعت رضائے مصطفیٰ بریلی، رامپور و علی گڈھ گزٹ، والفقیہ امرتسر وغیرہ میں تاریخی ریکارڈ کے طور پر درج ہیں۔ (باقی آئندہ)
Jazakallah khair
جزاک اللہ خیر 💐