- فکر رضا کے تناظر میں
تحریر : غلام مصطفےٰ نعیمی
روشن مستقبل دہلی
اعلی حضرت کی زندگی تعلیم، تصنیف اور تدریس سے عبارت ہے۔جس پر ان کے شاگرد، خلفا اور تصانیف شاہد ہیں۔بحیثیت معتقد ہمیں اپنے مقتدا ورہنما کے مزاج ومنہج کو اپنانا چاہیے یہی سچا خراج عقیدت ہے۔اس ضمن میں ان کے افکار و نظریات سے اخذ کردہ چند باتیں پیش خدمت ہیں۔
🔹اللہ و رسول کی عزت وحرمت ہر چیز سے بڑھ کر ہے۔اسے سب سے عزیز اور سب سے بڑھ کر جانیں۔
🔸علم سیکھیں، سکھائیں، سیکھنے سکھانے والوں سے محبت کریں۔
🔹 نظریہ پختہ، مزاج معتدل اور اسلوب عالمانہ رکھیں۔حق ثابت کرنا ہو یا باطل کا رد، مذکورہ چیزوں کا ہونا بے حد ضروری ہے۔
🔸پڑھنے کا مزاج بنائیں، صحیح معنی میں عالم وہی ہے جو پڑھنے کا عادی ہو۔
🔹علم اور صاحب علم کی قدر کریں، اپنی نسلوں کو علم کی قدر سکھائیں۔جس سوسائٹی سے علم/صاحب علم کی قدر ختم ہوجائے اس کا وقار جاتا رہتا ہے۔
🔸تعلیم وتعلم حقیقتاً ہو رسماً نہ ہو تاکہ صحیح طور پر علم کا فائدہ حاصل ہوسکے۔
🔹ماحول کی سختی کو حصول علم اور اشاعت علم میں رکاوٹ نہ بننے دیں، امام احمد رضا نے برٹش انڈیا کے انتہائی سخت ماحول میں بھی علم کی شمع کو روشن رکھا۔
🔸علم والوں سے مضبوط دوستیاں اور تعلقات بنائیں، بھلے ہی کسی علاقے/مشرب اور شعبے سے متعلق ہوں۔
🔹اپنوں سے اختلاف رائے میں بھی "اپنائیت” کا اثر رہنا چاہیے تاکہ مخالف اور مخالفت کو راہ نہ ملے۔
🔸پڑھنے، سمجھنے اور صحیح سمجھنے، کے لیے اہل علم کی صحبت ومجلس کو لازم جانیں۔
🔹علم کا مقصد احقاق حق اور اثبات صدق ہو، اظہار انا اور تسلط پسندی ہرگز نہ ہو۔
🔸علم کو جوڑنے کا ذریعہ بنائیں، توڑنے یا دور کرنے کا نہیں۔امام احمد رضا کے علم نے بر صغیر کے مدارس/خانقاہوں اور علما ومشائخ کو ایک دوسرے سے مربوط اور جوڑنے میں اہم کردار ادا کیا۔
🔹اچھے اخلاق، مہمان نوازی، سخاوت، قومی ہمدردی اور ملی غم خواری جیسے اوصاف کو طبیعت کا حصہ بنائیں۔
🔸 تحمل، توسع، صرف نظر اور اہم ترجیحات اہل علم کا زیور ہیں۔انہیں اپنائے بغیر اصلاح امت کا خواب ادھورا ہے۔
پروردگار عالم ہمیں امام احمد رضا کے علم وعشق اور مزاج ومنہج کو جاننے، سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
25 صفر المظفر 1446ھ
31 اگست 2024 بروز ہفتہ