اعلیٰ حضرت

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان ایک عظیم عاشق رسولﷺ

تحریر: (مفتی) غلام رسول اسماعیلی
استاذ مرکزی ادارہ شرعیہ پٹنہ بہار الھند

ایک مسلمان کا ایمان اس وقت تک کامل مومن نہیں ہوتا جب تک حضور علیہ الصلوۃ والسلام اسے اپنی جان، مال، اولاد اور ہرشی سے عزیز نہ ہوجائیں شیخ الاسلام والمسلمین مجدد دین و ملت عظیم البرکت اعلی حضرت الشاہ امام احمد رضا خاں فاضل بریلوی قدس سرہ کے بلند مرتبہ کی وجہ ان کا عشق مصطفیٰ ﷺ ہےان کی یہ خوبی تمام خوبیوں پر بھاری اور سب سے نمایاں ہے اسی وصف کی بدولت انہیں شہرت و بلندی اور آفاقی مقبولیت ملی ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ اعلیٰ حضرت کی پوری زندگی عشقِ رسول میں گزری ہے۔ آپ نے جو بھی لکھا وہ عشق رسالت ﷺ کے سانچے میں ڈھل کر لکھا آپ گفتگو فرماتے تو الفاظ کی صورت میں عشقِ رسول کےجام پلاتے،آپ قلم اُٹھاتےتوتحریرکی صورت میں عشق رسول ﷺ کی رنگ جمال نظر آتا ہے۔تفسیر و حدیث لکھے یا فقہ و فتویٰ لکھے منطق و فلسفہ پر کچھ لکھا یاریاضی لکھی ہر ایک میں انہوں نے عشق نبیﷺ کا رنگ جمال اور حسن محبوب کا جلوہ بھر دیا۔گویا کہ آپ کی زندگی کاایک ایک لمحہ عشقِ رسول کےجام پینےاور پِلانے میں صرف ہوا ہے۔
آپ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی کے نام سے معروف ہیں آپ کا پیدائشی نام محمد رکھا گیا اور تاریخی نام المختار ہے لیکن آپ کے دادا حضرت مولانا رضا علی خان رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کو احمد رضا کہہ کر پکارا آپ اسی نام سے مشہور زمانہ ہوئے بعد میں آپ نے پھر عبد مصطفٰے کا اضافہ فرمایا آپ شہر بریلی میں ۱۰؍شوال۱۲۷۲ھ مطابق ۱۴؍جون۱۸۵۶ء کو شنبہ کے دن بوقت ظہر پیدا ہوئے آپ نے چار سال کی عمر میں قرآن مجید ناظرہ مکمل کیا اور چھ سال کی عمر میں منبر رسول پر رونق افروز ہو کر مجمع عام سے میلادالنبیﷺکے موضوقع پرشاندارخطاب فرمایا اردو فارسی پڑھنے کے بعد آپ نے اپنے والد ماجد حضرت مولانا نقی علی خان رحمۃ اللہ علیہ سے عربی زبان میں دین کی علی تعلیم حاصل کی اور تیرا برس دس مہینے کی عمر میں ایک دقاق عالم دین ہو گئے۱۴؍شعبان المعظم ۱۲۸۶ھ مطابق ۱۹؍نومبر۱۸۶۹ء کو آپ کو عالم دین ہونے کی سند دی گئی اور اسی دن والد ماجد نے آپکے علمی کمال اور پختگی کو دیکھ کر فتویٰ نویسی کی خدمت آپ کو سپرد کر دی جسے آپ نے۱۳۴۰ھ مطابق۱۹۲۱ء سے اپنے وصال کے وقت تک جاری رکھا ۔

۵؍جمادی الآخرۃ ۱۲۹۴ھ مطابق ۱۷جون۱۸۷۷ء کو آپ سیدی مرشدی حضور مولانا سید آل رسول مارہروی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مرید ہوئے اور حضرت مرشد سے باطنی تعلیم حاصل فرمائی-
ذی الحجہ ۱۲۹۵ھ مطابق دسمبر۱۸۷۷ء میں پہلی بار آپ نے حج ادا فرمایا اور مدینہ طیبہ پہنچ کر سرکار مصطفیٰ ﷺ کی بارگاہ میں حاضر دی پھر دوسرا حج ذی الحجہ۱۳۲۴ھ مطابق فروری۱۹۰۶ء میں ادا کیا آپ نے ڈھائی ماہ مکہ شریف میں قیام فرمایا پھر ربیع الاول۱۳۲۴ھ مطابق اپریل۱۹۰۶ء میں سرکار اعظم پیارے مصطفیٰ ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے ایک ماہ تک مدینہ طیبہ میں رہ کر بارگاہ رسالت کی زیارت کرتے رہے مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے بڑے بڑے علماء آپ کے علمی کمالات اور دینی خدمات کو دیکھ کر آپ کے نورانی ہاتھوں پر مرید ہوئے اور آپ کو استاذ و پیشوا مانا-
یہ ایک نافراموش حقیقت ہے کہ آپ نے ہوش سنبھالنے کے بعدسے ساری زندگی اسلام کی خدمت اور سنیت کی فروغ واشاعت میں صرف فرمائی تقریباً ایک ہزار سے زائد کتابیں لکھیں جن میں فتاویٰ رضویہ بہت ہی ضخیم کتاب مانی جاتی ہے آپ نے قرآن مجید کا صحیح ترجمہ کنزالایمان اردو میں تحریر فرمایا آپ کے زمانے میں نیچریوں مکار صوفیوں غیر مقلد وہابیوں دیوبندیوں اور قادیانیوں نے اسلام و سنیت کے خلاف دھوکے کا جال بچھا کر بھولے بھالے مسلمانوں میں خوب گمراہی پھیلا رکھی تھی آپ نے دین و شریعت کی حمایت میں ان سب گمراہ گروں سے علمی لڑائی لڑ کر سب کے دانت کھٹے کر دیئے اور حق و باطل کو خوب واضح کر کے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دیئے آپ کے فتاویٰ کتابوں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ہزاروں بہکے مسلمانوں کو ہدایت عطا فرمائی بہت سے وہ علماء جو گمراہی کے سیلاب میں بہتے جا رہے تھے آپ کی رہنمائی سے انھوں نے حق قبول کیا اور سیدھے راہ پر گامزن ہو گئے۔جب وہابیوں دیوبندیوں نے سرکار مصطفے ﷺ کی شان اقدس میں گستاخی اور توہیں کتابوں میں لکھ کر شائع کی اور مسلمانوں کا ایمان بگاڈنا شروع کیا تو آپ نے اٹل پہاڑ کی طرح جم کر سرکار مصطفیٰ ﷺ کی عظمت کا پرچم لہرایا اور مسلمانوں کو سرکار کی محبت و تعظیم کا سبق دیا اور گستاخ ملاؤں کو لوہے کے چنے چبوا دیئے آپ کی مسلسل دینی خدمات اور علمی کارناموں کو دیکھ کر سنی علما و مشائخ اور عام مسلمان آپ کو اپنا ایک اعظیم مذہبی پیشوا مانتے ہیں اور آج بھی آپ کے فتووں پر عمل کرتے ہیں دین کی روشنی رکھنے والے علماء اور پیروں کا یہ فیصلہ ہے کے سرکار اعلیٰ حضرت مجدد دین ملت الشاہ امام احمد رضا خان فاضلِ بریلوی علیہ الرحمہ نے اپنی کتابوں میں قرآن و حدیث کی جو تعلیمات لکھی ہیں ان کو جو مانے وہ سنی مسلمان ہے اور جو اپ کی تعلیمات کی مخالفت کرے وہ بد دین اور گمراہ ہے ۔
اعلی حضرت کاعشق مصطفیٰ ﷺ:اعلی حضرت عظیم البرکت الشاہ امام احمد رضا خان فاضلِ بریلوی علیہ الرحمہ کے عشق رسول کااندازہ آپ کے نعتیہ شاعری دیوان اور تصانیف تحاریر سے لگایا جاسکتاہے۔ جب کوئی صاحب بیت اللہ شریف کا طواف کر کے اعلٰی حضرت کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے تو آپ کا پہلا سوال یہی ہوتا تھا کہ سرکار صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضری دی اگر جواب اثبات میں ملتا فوراً ان کے قدم چوم لیتے اور اگر جواب نفی میں ملتا پھر مطلق مخاطب نہ فرماتے ایک بار ایک حاجی صاحب خدمت میں حاضر ہوئے حسب عادت کریمہ اعلٰی حضرت نے پوچھا کیا بارگاہ سرکار کائنات صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم میں حاضری ہوئی وہ آبدیدہ ہو کر عرض کرنے لگے ہاں حضرت (امام احمد رضا) مگر صرف دو روز قیام رہا اعلٰی حضرت نے ان صاحب کی قدم بوسی کی اور ارشاد فرمایا وہاں کی تو سانسیں بہت ہیں آپ نے تو دو دن قیام فرمایا ہے۔ یہ ہے اعلی حضرت کا عشق رسول ﷺ کے مدینہ منورہ سے کوئی آئے تو انکے قدم چوم لیتے۔

نبی سے روضہ مبارک میں حاضری دینے کی نسبت سے عشق کی معراج اور امتحان میں کامیابی

اعلٰی حضرت امام احمد رضا رضی اللہ تعالٰی عنہ نے دو مرتبہ حرمین طیبین کی زیارت فرمائی۔ پہلی مرتبہ ہمراہ والد ماجد مولانا نقی علی خاں رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے۱۲۹۵ھ /۱۸۷۷ء کو اور دوسری مرتبہ۱۳۲۴ھ۱۹۰۵ء کو دوسری مرتبہ جب بارگاہ نبوی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہوئے تو شوق دیدار کے ساتھ مواجہہ عالیہ میں درود شریف پڑھتے رہے۔ امام احمد رضا رضی اللہ تعالٰی عنہ کو امید تھی کہ ضرور سرکار دو عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم عزت افزائی فرمائیں گے اور زیارت جمال سے سرفراز فرمائیں گے لیکن پہلی شب تکمیل آرزو نہ ہو سکی اسی یاس و حسرت کے عالم میں ایک نعت کہی جس کا مطلع ہے۔

وہ سوئے لالہ زار پھرتے ہیں
تیرے دن اے بہار پھرتے ہیں

اور پھر مقطع میں اپنے متعلق بارگاہ رسالت صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم میں عرض گزار ہوتے ہیں،

کوئی کیوں پوچھے تیری بات رضا
تجھ سے کتے ہزار پھرتے ہیں

مقطع عرض کرنا تھا قسمت جاگ اٹھی، ارمانوں کی بہار آ گئی خوشیوں کے کھیت لہلہانے لگے، ہوائیں معچر ہو گئیں ایک مومن مسلمان کی مراد یوں پوری ہو گئی اور امام احمد رضا کے عشق کی معراج ہو گئی تمام رسولوں کے سردار حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے عالم بیداری میں اعلٰی حضرت کو اپنا دیدار نصیب فرمایا۔ امام احمد رضا رضی اللہ تعالٰی عنہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے رخ انور کو دیکھتے ہی پکار اٹھتے ہیں۔

پیش نظر وہ نو بہار سجدے کو دل ہے بیقرار
روکئے سر کو روکئے ہاں یہی امتحان ہے

دیدار مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی آرزو ہر مسلمان کو ہوتی ہے مگر جس کو اس ذات مبارکہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی زیارت ہو جاتی ہے تو کوئی اویس قرنی بن کر چمکتا ہے تو کوئی امام اعظم ابو حنیفہ بن کر چمکتا ہے، تو کوئی شیخ کبیر احمد رفاعی، تو کوئی غوث اعظم محی الدین جیلانی بن کر چمکتا ہے، تو کوئی عطائے رسول خواجہ غریب نواز بن کر چمکتا ہے، تو کوئی خواجہ بندہ نواز بن کر دنیا میں چمکتے ہوئے نظر آتے ہیں انہی میں سے ایک عاشق رسول امام احمد رضا خان اعلی حضرت بن کے چمکے۔
نیزاعلٰی حضرت امام احمد رضا رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی شاعری آپ کے عشق رسول کے اظہار کا سب سے بڑا ذریعہ رہا ہے۔ خود ہی ارشاد فرماتے ہیں۔ “جب سرکار اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی یاد تڑپاتی ہے تو میں نعتیہ اشعار سے بےقرار دل کو تسکین دیتا ہوں ورنہ شعر و سخن میرا مذاق طبع نہیں۔ (سوانح اعلٰی حضرت)
جیساکہ آپ کی شاعری آپ کےعشقِ رسول ﷺکاصحیح پتہ دیتی ہے۔آپ اپنے عشقِ رسول کا اظہار بھی شعر میں یو ں ظاہر کرتے ہیں :

اِنہیں جانا اِنہیں مانا نہ رکھا غیر سےکام
لِلّٰہِ الحمد میں دُنیا سے مسلمان گیا

آپ کاعشقِ رسول اس درجۂ کمال پرتھا کہ آج سو سال سےز یادہ عرصہ گزرنے کے باوجودبھی اعلیٰ حضرت کے لکھے ہوئے اشعار جہاں پڑھےجائیں سننے والےاپنے دلوں میں عشقِ رسول کی تڑپ کو مزید بڑھتا ہوامحسوس کرتے ہیں۔ ان کے دل جھوم اٹھتے ہیں اور بِلا اختیار زبان سے سبحان اللہ کی صدائیں نکلتی نظر آتی ہیں۔آپ نے اپنے نعتیہ دیوان حدائقِ بخشش میں کئی مناظرِ قدرت کوعشقِ رسول میں ڈوب کر عشقی رنگ میں سمجھایا ہے۔ ان مناظر میں سے ایک سورج بھی ہے۔ یہ سورج ہے جو تمام جہاں کو اپنے نور سے روشن کررہا ہے، یہی سورج ہےجو ہزاروں سال سےدنیا کوجگمگا رہا ہےمگراس کانورکم نہیں ہورہا۔ یہی سورج ہےجوہر روز آ کر نور کی خیرات بانٹتاہے۔ یہی سورج ہے کہ جس کے طلوع وغروب ہونے سےدنیا کانظام چل رہا ہے،اس سورج کو کائنات کےمناظرمیں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔امام احمد رضا خان کی عشق کی کتاب میں اس سورج کی حقیقت کیاہے،ملاحظہ کیجئے: چنانچہ
میرے امام اعلیٰ حضرت لکھتے ہیں:

جس کو قُرصِ مہر سمجھا ہے جہاں اے مُنْعِمُو!
اُن کے خوانِ جُود سے ہے ایک نانِ سوختہ(حدائقِ بخشش،ص۱۳۶)

امام عشق و محبت اعلیٰ حضرت اس شعرمیں فرماتے ہیں کہ اےتاجدارو! اے بادشاہو!سارا جہاں جسےسورج کی ٹکیا کہتا ہے،لوگ جسےآفتاب کہہ کر پکارتے ہیں، جسے سورج کا نام دیا جاتا ہے۔یہی سورج اوریہی آفتاب، جانِ عالم، نورِ مجسم کے دستر خوان کی جلی ہوئی روٹی ہے، ذرا سوچوکہ جس کریم آقا،مدینے والےمصطفےٰ ﷺ کے دسترخوان کی جلی ہوئی روٹی سے کائنات کا گزارہ ہو رہا ہے تو ان کے دستر خوان کی وہ روٹیاں جوجلن سےمحفوظ ہیں، ان کا کیا حال ہوگا اور جس محبوب کی جلی ہوئی روٹی کی طرف دیکھنے سے آنکھیں چُنْدِھیا جاتی ہیں، اس کے اپنے چہرۂ مبارک کے انوار کا عالم کیا ہوگا؟ ۔کسی شاعر نے کیا ہی خوب کہا ہے:

قدموں میں جبیں کو رہنے دو چہرے کا تصوّر مشکل ہ
جب چاندسے بڑھ کر ایڑی ہے تو رُخسار کا عالَم کیا ہوگا

حدیثِ پاک میں ہےصحابی رسول،حضرت جابر بن سَمُرہ فرماتے ہیں:ایک مرتبہ میں نےرسول الله کو چاندنی رات میں سُرخ(دھاری دار) حُلّہ پہنے ہوئےدیکھا،میں کبھی چاندکی طرف دیکھتا اورکبھی آپ کےچہرۂ اَنورکو دیکھتا،تو مجھےآپ کا چہرہ چاند سے بھی زِیادہ خُوبصُورت نظر آتا تھا ۔ (ترمذی)
امام عشق و محبت ، اعلی حضرت نے اس حدیث کو اپنے ان اشعار میں یوں بند کیا کہ

خُورشید تھا کِس زور پر
کیا بڑھ کے چمکا تھا قمر
بے پردہ جب وہ رُخ ہوا
یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں(حدائقِ بخشش، ص۱۱۰)

یعنی اعلی حضرت اس شعرمیں فرماتے ہیں کہ عین دوپہر کے وقت سورج اپنےعروج پر ہو، پھر رات ہو جائے اور چاند اپنے جوبن پرآجائے، ایسے میں جانِ عالَم کا رُخِ انور پردے سے باہرآئے تو سورج بھی شرما جائے گا، چاند بھی آنکھیں چُرائے گا اور منہ چھپائے گا کیونکہ جیسے میرے سرکار ہیں ایسا نہیں کوئی۔
حضورنبی کریم ﷺ کو اللہ عزوجل نے بے مثل و مثال بنایا ہے آپ جیسا نہ آپ سے پہلے کوئی ہوا اور نہ قیامت تک ہو گا، بلکے انسان تو انسان اللہ کریم کے فرشتوں کا بھی یہی کہنا ہے جسے امام عشق و محبت نے اپنے ان اشعار میں بیا ن فرمایا:

یہی بولے سدرہ والے
چمن جہاں کے تھالے
سبھی میں نے چھان ڈالے
تیرے پائے کا نہ پیایا
تجھے یک نے یک بنایا

یعنی سدرۃ المنتہی کے تمام فرشتے بمع تمام فرشتوں کے سردار سیدنا جبریل امین علیہ السلام بیک زبان ہو کر عرض کرتے ہیں کہ ہم نے پورے جہان کوچھان ڈالالیکن آپ جیسا کوئی نہیں پایا،اس شعر میں اس حدیث مبارکہ کی طرف اشارہ ہے کہ سیدنا جبریل امین حضور کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں :قلبت مشارق الا رض و مغاربھافلم اجد رجلا افضل من محمد۔گویا جبریل امین عرض کرتے ہیں میں نے سارا جہان پھرا ہے ،بڑے بڑے حسین دیکھے لیکن آپ جیسا حسین و افضل کوئی نہیں دیکھا۔(معجم اوسط)
امام اہلسنت اعلیٰ حضرت کےان اشعار کو پڑھ کر یوں لگتاہے واقعی اعلیٰ حضرت سچے عاشقِ رسول تھے، بلکہ عاشقانِ رسول کے قافلے کے سپاہ سالار تھے، اعلیٰ حضرت ساری زندگی عشقِ رسول کےجام پلاتے رہے، اعلیٰ حضرت ساری زندگی عشقِ رسول کو فروغ دیتے رہے، اعلیٰ حضرت ساری زندگی اُمّت کو عشقِ رسول کا درس دیتے رہے اور یہ اسی عشقِ رسول کا صلہ تھا کہ نبی کریم،رؤف رحیم ﷺ نے اپنے اس عاشقِ صادق کو حالتِ بیداری میں اپنا رخِ والضحی دیکھاکر اپنی زیارت سے مشرف فرمایا۔ یادرکھئے! عشقِ رسول صر ف نعرے لگانے سے یا محبت رسول کے دعوے کرنے سے نہیں بلکے اپنے کردار کو فرامینِ مصطفےٰ ﷺ اور سنت ِمصطفےٰ ﷺ کے سانچے میں ڈھالنے سے نصیب ہوگا۔ اللہ تعالیٰ عر سِ ا علی حضرت کے صدقے ہمیںبھی اپنے ظاہرو باطن کو سنّتِ رسول کے سانچے میں ڈھالنے کی توفیق بخشے۔ آمین

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

آسان ہندی زبان میں اسلامی، اصلاحی، ادبی، فکری اور حالات حاضرہ پر بہترین مضامین سے مزین سہ ماہی میگزین نور حق گھر بیٹھے منگوا کر پڑھیں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے