ترتیب :محمد ہاشم اعظمی مصباحی
نوادہ مبارکپور اعظم گڈھ یوپی انڈیا
مکرمی! ابتدائے آفرینش سے ہی حصول علم کی عظمت و اہمیت مسلم ہے انسانیت نے اپنے سفر کا آغاز جہالت کی تاریکی سے نہیں بلکہ علم کی روشنی سے کیا ہے۔اسلام نے انسان کو پہلا درس ہی علم کا دیا ہے خالقِ کائنات نے ابوالبشر حضرت آدم علیہ السلام کو علم عطا کرکے ملائکہ پر تفوق بخشا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی وحی علم ہی سے متعلق نازل فرمائی اس کا اثر یہ ہواکہ اس امت کے افراد نے اپنے آپ کو علم کے لیے کھپادیا ہمارے علماء اسلاف میں اکثر وبیشتر فقر وفاقہ کے شکار تھے مگر ان کا فقر تحصیل علم کے لیے کبھی رکاوٹ نہ بنا انہوں نے کبھی کسی کے سامنے اپنی محتاجی کو ظاہر بھی نہیں کیا۔انہوں نے علم کی خاطر نہایت جاں گسل اور ہولناک مصائب وآلام جھیلے اور ایسے صبر وضبط کا مظاہرہ کیا ہے کہ ان کی قوتِ برداشت کے سامنے خود ”صبر“ بھی بے چین وبے قرار ہوگیا۔علم کے ذریعے ہر چیز کو اس کے اصل رنگ اور صورت میں دیکھا جا سکتاہے علم کی طاقت کی بدولت انسان نے ہر دور میں بڑے بڑے کارنامے سر انجام دیئے ہیں۔علم ہی سے انسان معزز و معظم بنتا ہے اس لیے جس قدر ممکن ہو علم میں کمال حاصل کرنا چاہئیے علم انسانی زندگی میں روشن چراغ کی مانند ہے جن کی روشنی میں ہی انسان صحیح راہ کا انتخاب کرسکتا ہے ورنہ جہالت کا گھٹا ٹوپ اندھیرا انسان کو کفر و ضلالت کے اس بھیانک گڑھے کی بھینٹ چڑھادیتا ہے جہاں سے اس کا نکلنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن نظر آتا ہے جہاں حصول علم کی اہمیت مسلم ہے وہیں پر یہ امر بھی ایک بینہ حقیقت ہے کہ حصولِ علم کی راہ میں بہت سے فروعی واجتہادی اختلافات بھی پاۓ جاتے ہیں یہ اختلافات محمود ہیں اور بسا اوقات مذموم بھی ۔ جس طرح انبیاء کی شریعتیں الگ الگ رہی ہیں، فروعی مسائل میں ہر مجتہد کی رائیں مختلف ہوئی ہیں کسی کو باطل نہیں کہا جاسکتا اس قسم کا اختلاف امت کی آسانی کے لیے ہے جواختلاف محمود اعلیٰ نمونہ ہے اس تناظر میں حضرت عمر بن عبدالعزیز کا جملہ بہت ہی وقعت رکھتا ہے:ما یسرّنی لو أن أصحاب محمد لم یختلفوا؛ لأنھم لو لم یختلفوا لم تکن رخصة (جامع بیان العلم وفضلہ لابن عبدالبر:۲/۷۸) یعنی مجھے اس بات سے مسرت نہ ہوتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں اختلاف نہ ہوتا؛ اس لیے کہ ان میں اگر اختلاف نہ ہوتا تو گنجائش ورخصت نہیں رہتی. حضرت امام مالک سے خلیفہٴ وقت نے درخواست کی کہ آپ موطا کے متعدد نسخے تیار کردیں، ہم اس کو سلطنت کے ہرشہر میں بھیج دیں گے اور سب کو شاہی فرمان کے ذریعہ اس پر متفق کردیں گے، مگر حضرت امام مالک اس کے لیے راضی نہیں ہوئے اور اس ارادے سے باز رہنے کی تلقین فرمائی اور فرمایا: لوگوں کے پاس مختلف حدیثیں پہنچی ہیں وہ ان روایات کے موافق عمل پیرا ہیں، بعد کے خلیفہ نے بھی اس قسم کا مشورہ دیا مگر حضرت امام مالک نے اس قسم کا مشورہ پسند نہیں فرمایا، کیوں کہ اس کی وجہ سے امت مصیبت میں مبتلا ہوسکتی تھی۔ (مقدمہ اوجز المسالک:۱/۱۹) لیکن تعصب بھی اختلاف کے باب میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے جو مذموم محض ہے انسان جانتا ہے، پہچانتا ہے، مگر قومی ہمدردی، لسانی وزبانی ہم آہنگی،مسلکی اتحاد واتفاق اور سیاسی اشتراک کی وجہ سے اختلاف کرتا ہے یا پھر ان سب سے قطع نظر محض نفسانی خواہش کی تکمیل کے لیے اور جذبات کی تسکین کے لیے اختلاف کرتا ہے یہود ونصاریٰ کا اپنے نبیوں سے اور کفار مکہ کا اسلام ومسلمانوں سے اختلاف وعناد کا بنیادی داعیہ وکلیدی محرک یہی تعصب ہی تو تھا. آج عجیب زمانہ آ گیا ہے!آج کل کے جہلا تو جہلا علماء بھی سامنے والے کو کچھ نہیں سمجھتے۔ اگر آپ دلائل و براہین سے اختلاف کریں تو سامنے سے کہہ دیا جاتا ہے کہ کیا تم فلاں عالم سے بڑے عالم ہو؟ تمہاری علمی حیثیت کیا ہے؟ جبکہ ہمارے اسلاف کا یہ طریقۂ کار نہیں تھا۔ اگر ان کے سامنے شاگرد بھی اختلاف کرتا تو دل و جان سے اسے قبول کرتے کیوں کہ بات علم کی ہورہی ہوتی تھی نہ کہ اپنی انا کی۔ لیکن افسوس آج کل کسی سے اختلاف کرلو تو اپنے علمی گھمنڈ کے اظہار کا الزام ختم نہیں ہوتا۔”امام مالک کے شاگرد امام عبد الله بن وہب بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص امام مالک کے پاس آیا اور پوچھا کہ کیا داڑھی میں خلال کرنا سنت ہے؟ تو امام مالک نے فرمایا: ایسی کوئی چیز نہیں۔ جب وہ شخص چلا گیا تو امام عبد الله بن وہب نے امام مالک سے کہا کہ داڑھی میں خلال کرنا سنت ہے اور پھر اپنی سند سے حدیث بیان کی، تو جب اگلی دفعہ امام مالک سے کسی نے یہی سوال پوچھا تو فرمایا ہاں داڑھی میں خلال کرنا سنت ہے۔”
تو معلوم ہوا ہمارے اسلاف علم حاصل کرنے میں بخل اور تکبر سے کام نہیں لیتے تھے اور نہ اُس دور کے شاگرد یا پیروکار یہ کہتے نظر آتے کہ کیا تم ہمارے شیخ یا فلاں عالم سے بڑے علم والے ہو!
یاد رکھیں! حضرت عمر رضی الله عنہ نے فرمایا ہے:علم کا دار و مدار عمر کے لحاظ سے چھوٹے بڑے ہونے پر نہیں ہے۔اس حوالے سے حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بڑی دل آویز بات کہی ہے : یہ مت دیکھو کہ کس نے کہا بلکہ یہ دیکھو کہ کیا کہا۔