تحریر: محمد رہبر رشیدی شرف جامعی
دارالعلوم نظامیہ رضویہ ، مہاراشٹر گیورائی
بسا اوقات شیٔ واحد کے متعدد اسماء و القاب ہوتے ہیں جن کا استعمال بدلتے حالات کے پیش نظر امتیاز و تفریق پیدا کرنے کے لیے کیا جاتا ہے ہوبہو اسی طرز پر مسلک اعلیٰ حضرت کوئی جدید پانچواں مسلک نہیں بلکہ بلحاظ اصول و عقائد و ضروریات دینیہ۔ سواد اعظم ، ما انا علیہ و اصحابی اور اہل سنت و جماعت کی قرار واقعی تعبیر اور سچی ترجمانی ہے گویا مسلک اعلی حضرات ائمۂ مذاہب اربعہ اور ان کے مقلدین و متبعین فروعیات میں باہم اختلافات رکھنے کے باوصف حسین ترین امتزاج و اتصال اور انجمن و سنگم سے عبارت ہے۔ لہٰذا ”من شذ شذ فی النار“ (جو جماعت سے الگ ہوا وہ جہنم میں گیا) کی وعید صرف دربارۂ عقائد ہے ، مسائل فرعیہ فقہیہ کو اس سے کوئی علاقہ نہیں ۔
اس نئے نام کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟ اس کا داعیہ کیا ہے؟ تیرہویں صدی ہجری کے نصف اواخر اور چودھویں صدی ہجری کے نصف اوائل میں غیر منقسم ہندوستان کے دروں وہابیت و دیوبندیت اور فرق باطلہ کی شکل میں فتنے ابھرنے لگے ، جس کے بعض اعتقادات و نظریات ایمان شکن تھے، گستاخان شان رسالت اپنے باطل و بے سر و پا نظریات کے سہارے بھولے بھالے مسلمانوں سے دین چھین کر ورطہ ہلاکت میں مبتلا کرنے کے خواہاں نظر آنے لگے۔ عوام اہلسنت کے صاف و شفاف آئینہ دل مکدر کرکے ان کو دام تزویر کے پھندے میں جکڑنے لگے اور اصل یمان کو کفر و شرک باور کرنے لگے وہ جماعت اہلسنت جس جادہ حق پر انبیائے کرام علیہم السلام ، صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین ، تابعین ، تبع تابعین ائمۂ مجتہدین ، اسلاف امت و اولیائے کاملین گامزن تھے اسی سواد اعظم کے معتقدات مثلاً علم غیب مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ، شفاعت ، استعانت و استمداد ، معجزات و تصرفات انبیاء، توسل الی اللہ ، امکان کذب باری تعالیٰ ، امکان نظیر رسول صلی اللہ علیہ وسلم وغیرہم نصوص قطعیہ اور اجماع سے ثابت شدہ جیسے عقائد و نظریات سے نہ صرف انکار کرنے لگے بلکہ دھڑلے سے ان سب کو شرک و کفر گردان کر اہل سنت و جماعت کے متبعین اور ان عقائد کے حاملین کو مشرکین ٹھرانے لگے، مباح الدم اور واجب القتل کا فتویٰ صادر کرنے لگے اور کہنے لگے یہی مشرکین عرب کا شرک تھا تو اس وقت کے نامور و باکمال شخصیات مجاہد آزادی ہند علامہ فضلِ حق خیرآبادی ، سیف اللہ المسلول علامہ فضل رسول بدایونی ، تاج الفحول علامہ عبد القادر بدایونی ، عالم ربانی ،واعظ لاثانی علامہ سید شاہ احمد اشرف کچھوچھوی ، صدر الافاضل علامہ سید نعیم الدین مرادآبادی ،حافظ بخاری سید شاہ عبد الصمد چشتی علیہم الرحمہ اور خصوصیت کے ساتھ افق آسمان پر چمکتا ہوا آفتاب و ماہتاب ، علم و فضل کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا بحر ذخار ، علوم متداولہ کے بحر بیکراں ، چرخ شریعت و طریقت کے نیر تاباں قاطع نجدیت غواص بحر معرفت مجدد ماتہ حاضرہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری محدث بریلوی علیہ الرحمہ اور ان جیسی قد آور شخصیات و علماۓ فحول نے جہاد بالقلم کی وساطت سے فتنہ نجدیت و وہابیت کی سرکوبی کیں تاہم اس جولان گاہ میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری قدس سرہ العزیز نے کارہائے نمایاں انجام دیئے اس پر آپ کی گراں قدر تصنیفات و تالیفات بین ثبوت ہیں ، آپ نے مذکورہ عقائد اہلسنت پر خاصاً کتب لکھیں اور ایک ایک عقیدہ کے اثبات میں دلائل و براہین کے انبار لگا دیے نہ صرف آپ نے فتنہ نجدیت و وہابیت کو مات دی بلکہ رافضیت و خارجیت اور شیعیت جیسے سلگتے جراثیم کی بھی اینٹ سے اینٹ بجادی غرضیکہ جملہ فرق باطلہ کو ایسے جوابات دیے اور ان کے رد میں ایسی ایسی شاہکار کتابیں لکھیں کہ تمام باطل گروہ انگشت بدنداں رہ گئے غیر جانبدارانہ یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ آپ نے ایسے نازک حالات میں روح رواں کا کردار ادا کیا ہے ، آپ نے ان کے سربستہ راز اور قلعی کھول کر لوگوں کو باور کرایا کہ مشرک ٹھہرانے والے لوگ کس کے وفا شعار ہیں ، عقائد اہلسنت پر واردات و الزامات اور ان کے خود ساختہ دلائل سے مرصع مزخرفات و مزعومات کے تار و پود کو دلائل قاطعہ کی روشنی میں بکھیر کر رکھ دیا، آپ کی عالمگیر و ہشت پہلو شخصیت تصنیفات و تالیفات سے متعارف ہے، جب ہر گروہ کفر و شرک اور ضلالت و گمرہی کی آڑ میں خود کو اہل سنت و جماعت کا نام دے رہا تھا تو ایسے فرعونیت زدہ ماحول میں بہتر فرقوں سے امتیاز و تفریق پیدا کرنے کے لیے بلند پایہ، عظیم المرتبت ، مہتم الشان شخصیات اسلام نے ”اہل سنت و جماعت“ کی دوسری تعبیر ”مسلک اعلی حضرت“ کو احقاق حق و ابطال باطل کی رزم گاہ میں زریں خدمات انجام دینے اور نمایاں کردار ادا کرنے کے باعث شناخت قرار دیا ، آج بھی بلاد عرب میں اہل سنت و جماعت ہی کی صداۓ باز گشت لگائی جاتی ہے لیکن چونکہ ہند و پاک کے بیشتر علاقوں میں فرقوں کا ایک ازدہام بر سر پیکار ہے بایں وجہ مسلک اعلی حضرت کو اہل سنت و جماعت کا تشخص و شناخت قرار دینا ناگزیر ہوا۔
امروز جبکہ اس کائنات ہست و بود میں جدھر بھی نگاہ اٹھائیں پھر سے ایک عجیب سا شور و ہنگامہ بپا ہے ، نت نئے فتنے قدم جما رہے ہیں ۔ اختلافات کی بھرمار ہے ، شب و روز فرقے وجود میں آرہے ہیں اور ہر فرقہ اسلام کا لبادہ اوڑھ کر خفیہ طور پر اسلام کے کندھے پر تیشہ زنی کر رہا ہے ، کشتی اسلام کے پیندے کو چھید کر رہا ہے ، خود پر اہل سنت و جماعت کا نام چسپاں کر کے سادہ لوح عوام اہلسنت کو شاہراہ ہدایت سے پھیرنے کی سعی مسلسل کر رہا ہے ، ضروریات دین کے خلاف الٹا سیدھا بیان دے کر لوگوں کے دلوں سے ایمان سلب کرنے کی سازشیں کر رہا ہے اور خود کو مذہب حق پر ثابت کرنے کی انتہائی شرمناک و گھناؤنی کوشش کر رہا ہے ۔ تو پھر مسلک اہلسنت و جماعت کو مسلک اعلی حضرت قرار دینا کیونکر بے جا ہو گا اور حدیث پاک: ” ما راہ المسلمون فھو عند اللہ حسنا “ کے مطابق اس کے کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں بلکہ علماۓ اعلام کے اٹوٹ فیصلہ کی وجہ سے یہی انسب ہے۔ اللہ کریم ہم سب کو راہ ہدایت پر گامزن رکھے!