نتیجہ فکر: فیضان علی فیضان
میں نے کل رات جس کو دیکھا تھا
یہ نہ پوچھو وہ کون تھا کیا تھا
میں ہی پہچان اسے نہیں پایا
وہ میرے سامنے سے گزرا تھا
جس پہ میری نگاہ ٹھہری تھی
ساری محفل میں وہ اکیلا تھا
اس کو پروا نہ تھی کسی کی مگر
میرے سینے میں خوف دنیا تھا
شمع محفل کو دیکھ کر روشن
قطرہ قطرہ کوئی پگھلتا تھا
وہ بھی کیا دن تھے زندگانی کے
دل میں میرے بھی کوئی رہتا تھا
میں فیضان تھا دوسروں کو لئے
میرا اپنا وجود ہی کیا تھا