خیال: ذکی طارق بارہ بنکوی
سعادت گنج،بارہ بنکی،یوپی
ہم سے روٹھے سے ہیں احباب ہمارے سارے
الٹے بہنے لگے اب پیار کے دھارے سارے
مشتری زہرہ عطارد سے ملے نام جنھیں
آسماں پر وہ چمکتے ہیں ستارے سارے
درد کے طور کبھی آہ کبھی اشکوں کے طور
میں نے اے عشق ترے قرض اتارے سارے
کون سی چُوک ہوئی اس نے ہے کیا داؤں چلا
کس طرح جیتے ہوئے معرکے ہارے سارے
اب کسی شخص کے چہرے پہ نہیں شادابی
کیا مری طرح ہیں حالات کے مارے سارے
ہونٹ ساکت رہے اور ہوگئے عہد و پیماں
کتنے پُر معنٰی ہیں نظروں کے اشارے سارے
ہوگئی درد کا عنوان کتابِ ہستی
اس ہی موضوع سے پر صفحے ہیں سارے سارے
ہائے ری مفلسی پھر بھی نہ وہ پہچانے "ذکی”
میں نے جتنے بھی تعارف تھے گزارے سارے