غزل

غالب کی زمین میں: طنز و مزاح پر مبنی غزل

خیال آرائی: اسانغنی مشتاق رفیقیؔ

جب سے اُن کے گھر کے آگے بیوٹی پارلر کُھلا
رات دن رہنے لگا ہے شیخ جی کا در کُھلا
بوڑھے بھی بن ٹھن کے اب لگنے لگے ہیں نوجواں
جب سے میرے گاؤں میں ممتاز کا دفتر کُھلا
اِن کم انگ اور آؤٹ گوئنگ کی ملی تفصیل جو
پیچھے ہر مس کال کے ہے اک پری پیکر کُھلا
اُس کی ہی جب چلتی دیکھا روم کے دربار میں
نام کس کا بھی رہے پر اصل ہے قیصر کُھلا
مفتیوں سے دور ہی رہنا خدارا دوستو!
لے کے پھرتے ہیں زباں میں وہ عجب خنجر کُھلا
اُس کی محفل میں جو بیٹھا میں سُنانے حالِ دل
قابل عزت فقط ہیں صاحبانِ زر کُھلا
جس کی دانائی کے چرچے تھے بہت اخبار میں
وہ نرا بدھو رہا یہ اُس سے ملنے پر کُھلا
ڈال کر ٹوپی جو بنتا ہے بڑاہی مذہبی
کیوں ”مرینا بیچ“ میں وہ گھومتا ہے سر کُھلا
جب رفیقیؔ نے خطیبِ شہر سے کی التجا
ہے امیر ِ شہر کے تابع یہاں منبر کُھلا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے