غزل

غزل: ہم تو صحرا ہی میں یوں بھٹکتے رہے

خیال آرائی: گل گلشن
ممبئی

جب سمندر ملا تشنگی نہ رہی
ہم تو صحرا ہی میں یوں بھٹکتے رہے

دل نے ہم سے کہا تم جفا کار ہو
ہم ہی نادان تھے تم پہ مرتے رہے

حسن اب غیر کا ان کو یوں بھا گیا
ہم تو ان کے لئے ہی سنورتے رہے

چھوڑنا تو انھیں ہم پہ دشوار تھا
ساتھ رہنے سے بھی وہ مکرتے رہے

وقت گلشن کا تجھ بن بدل سا گیا
یوں تو گل بھی کھلے اور بکھرتے رہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے