غزل

غزل: ہم تو صحرا ہی میں یوں بھٹکتے رہے

خیال آرائی: گل گلشن
ممبئی

جب سمندر ملا تشنگی نہ رہی
ہم تو صحرا ہی میں یوں بھٹکتے رہے

دل نے ہم سے کہا تم جفا کار ہو
ہم ہی نادان تھے تم پہ مرتے رہے

حسن اب غیر کا ان کو یوں بھا گیا
ہم تو ان کے لئے ہی سنورتے رہے

چھوڑنا تو انھیں ہم پہ دشوار تھا
ساتھ رہنے سے بھی وہ مکرتے رہے

وقت گلشن کا تجھ بن بدل سا گیا
یوں تو گل بھی کھلے اور بکھرتے رہے

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

آسان ہندی زبان میں اسلامی، اصلاحی، ادبی، فکری اور حالات حاضرہ پر بہترین مضامین سے مزین سہ ماہی میگزین نور حق گھر بیٹھے منگوا کر پڑھیں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے