متاع درد کی تفسیر کوئی
ذرا پڑھ لے مری تحریر کوئی
ستم یہ ہے ہماری کیفیت پر
کہیں ملتا نہیں دلگیر کوئی
مجھے پرواز کا جزبہ تھا لیکن
پڑی تھی پاؤں میں زنجیر کوئی
میں جس دن سے موثر ہو گیا ہوں
مری کرتا نہیں تسخیر کوئیl
مری آنکھوں سے آنسو بہ رہے ہیں
سنبھالے آ کے یہ جاگیر کوئی
جو خود کو معتبر کہتے ہیں انکی
کہاں ہے شہر میں توقیر کوئی
مواقع تو ملیں ہم کو بہت سے
نہ ہم سے ہو سکی تعمیر کوئی
میں وہ جگنو ہوں کہ خیرات میں اب
جسے ملتی نہیں تنویر کوئی
غزل کی بادشاہت میں کبھی اب
ہوا ہے اور نہ ہوگا میر کوئی
مرے ماں باپ سے بڑھکر نہیں ہیں
وہ چاہے سنت ہو یا پیر کوئی
تری یہ بے رخی کرتی ہے ثابت
ترے پہلو میں ہے تصویر کوئی
تری گفتار سے اندر ہی اندر
کی جیسے چبھ رہا ہے تیر کوئی
ہزاروں بار تحفے میں دیا ہے
کسی نے پھول تو شمشیر کوئی
دل بے تاب ملنا چاہتا تھا
مگر کرتا رہا تاخیر کوئی
ہمارے خواب کی ہم کو ہی روشن
کبھی نہ مل سکی تعبیر کوئی
افروز روشن کچھوچھوی کچھوچھہ امبیڈکر نگر