غزل

غزل: پڑی تھی پاؤں میں زنجیر کوئی

متاع درد کی تفسیر کوئی
ذرا پڑھ لے مری تحریر کوئی

ستم یہ ہے ہماری کیفیت پر
کہیں ملتا نہیں دلگیر کوئی

مجھے پرواز کا جزبہ تھا لیکن
پڑی تھی پاؤں میں زنجیر کوئی

میں جس دن سے موثر ہو گیا ہوں
مری کرتا نہیں تسخیر کوئیl

مری آنکھوں سے آنسو بہ رہے ہیں
سنبھالے آ کے یہ جاگیر کوئی

جو خود کو معتبر کہتے ہیں انکی
کہاں ہے شہر میں توقیر کوئی

مواقع تو ملیں ہم کو بہت سے
نہ ہم سے ہو سکی تعمیر کوئی

میں وہ جگنو ہوں کہ خیرات میں اب
جسے ملتی نہیں تنویر کوئی

غزل کی بادشاہت میں کبھی اب
ہوا ہے اور نہ ہوگا میر کوئی

مرے ماں باپ سے بڑھکر نہیں ہیں
وہ چاہے سنت ہو یا پیر کوئی

تری یہ بے رخی کرتی ہے ثابت
ترے پہلو میں ہے تصویر کوئی

تری گفتار سے اندر ہی اندر
کی جیسے چبھ رہا ہے تیر کوئی

ہزاروں بار تحفے میں دیا ہے
کسی نے پھول تو شمشیر کوئی

دل بے تاب ملنا چاہتا تھا
مگر کرتا رہا تاخیر کوئی

ہمارے خواب کی ہم کو ہی روشن
کبھی نہ مل سکی تعبیر کوئی

افروز روشن کچھوچھوی کچھوچھہ امبیڈکر نگر

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے