غزل

غزل: منزل تلاش کر

جذبے سے تو جنوں میں منزل تلاش کر
آثار ہو طوفاں کے تو ساحل تلاش کر

دل کو اچھالتے ہوئے پھرتے ہیں سب یہاں
دل دے کے دل جو دے دے تجھے وہ دل تلاش کر

جس میں تجھے نوازے محبت سے سارے لوگ
ایسی کوئی زمانے میں محفل تلاش کر

آئے ہیں نوجوانی میں ایسے خیال بھی
آنکھوں سے قتل جو کرے وہ قاتل تلاش کر

عامل بتائے گا کہ عمل کس طرح کرے
کچھ سیکھنا ہے تجھ کو تو عامل تلاش کر

آیا ہے زندگی میں تو کچھ سیکھ لے ضرور
پانا ہے تجھ کو عقل تو عاقل تلا ش کر

تحسین یہ بھی تجربہ ایک بار کرکے دیکھ
زخموں سے چور ہو کے تو بسمل تلاش کر

نتیجہ فکر: محمد تحسین رضا قادری
استاذ: دارالعلوم ضیائے مصطفیٰ فہیم آباد کالونی کانپور
٩٨٣٨٠٩٩٧٨٦

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے