ازقلم: غلام سرور مصباحی
رکن تحریک اصلاح ملت
متعلم جامعہ اشرفیہ مبارک پور
دینی ٬ ودنیوی اور روحانی اعتبار سے ایک دوسرے کی مدد کرنا (helping) اسلامی
اور سماجی اخلاق وآداب کا حصہ ہے-اسلام
نے اہل ایمان کو دائمی طور پر تلقین کی ہے کہ
وہ اپنے مسلمان بھائ کا تعاون کرے-
جیسا کہ خالق لم یزل عزوجل نےاپنی مقدس کتاب میں ارشاد فرمایا : وتعاونوا علی البر والتقوی ولاتعاونوا
علی الاثم والعدوان . ترجمہ اور نیکی اور پرہیزگاری (کے کاموں) پر مدد کرو اور گناہ اور ظلم( کےکاموں ) پر مدد نہ کرو.
معلوم ہوا اسلامی٬ روحانی اور معاشرتی نظام کی بقا کی خاطر مسلمانوں میں باہمی تعاون کا جذبہ ہونا بہت ضروری ہے-(باہمی تعاون اورمدد سے باہمی ربط وضبط اور نا معلوم شخص سے بھی رشتہ اخوت پیدا ہوتا ہے -یہی وہ شی ہےجس سے ایک خوبصورت معاشرہ تشکیل پاتا ہے ٬نظام سماج میں استحکام پیدا ہوتا ہے نیز بکھرے ہوے سوسائٹی کو مربوط کر کے عروج بخشا جاتا ہے-
ایسا کیوں نہ ہو کہ خود اللہ پاک اور اس کے پیارے حبیب عزوجل و صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم ہمیں یہی بتاتی ہے – جیساکہ مصطفی جان رحمت نے ارشاد فرمایا کہ ,,,, من کان فی حاجۃ اخیہ کان اللہ فی حاجتہ ٬٬٬٬ جو شخص اپنے بھائ کی ضرورت پوری کرےگا اللہ تعالی اس کی ضرورت پوری کرےگا – اس حدیث پاک سے یہ بات اظہر من الشمس ہوگئی کہ باہمی تعاون میں در اصل زندگی کی رونق ہے- اسلام کی اہم تعلیم میں باہمی الفت و محبت اور حسن اخلاق و آداب کو بر قرار رکھنا ہے -یوں تو زندگی کی ہر ایک پہلو پر غور خوص کیا
جاے تو کوئ بھی ایسا گوشہ نظر نہیں آے گا جہاں استمداد و تعاون کی جھلک نہ دیکھی جاتی ہو لیکن پھر بھی شرک "شرک "شرک کی رٹ لگانے والوں کو بس اتنا کہا جا سکتا ہے کہ تم خفیف العقل اور اسلامی تعلیمات کو پس پشت ڈال دئےہو .اس مقام پر شاید کوئی شخص یہ سوال کر سکتا ہے کہ جہاں جہاں قرآن مجید میں غیر اللہ سے مدد مانگنے کی ممانعت ہے اس سے کیا مراد ہے ؟
اس سے مراد غیر اللہ سے اس طور پر مانگنا کہ
وہ بالذات مددکرتے ہیں- اگر نیت یہ ہوکہ وہ خدا کی عطا سے دیتے ہیں تو کوئی مضائقہ نہیں -اب ذرا ٹھہر کر قرآن کی یہ آیت پڑھیے : ””ياايها الذين امنوا استعينوا بالصبر والصلوه ”’ اے ایمان والو! صبر اور نماز سے مدد مانگو یہاں تو غیر اللہ سے مانگنے کا حکم دیا جا رہا ہے – کیا صبر غیر اللہ نہیں ہے؟کیا نماز غیر اللہ نہیں ہے؟قرآن و حدیث اور بزرگان دین کے اقوال میں صبر کے بے پناہ فضائل بیان کئے گئے ہیں -ان میں سے 10فضائل کا خلاصہ درج ذیل ہے:
(1)… اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (پ ۱۰، الانفال: ۴۶)
(2)…صبر کرنے والے کو اس کے عمل سے اچھا اجر ملے گا۔(پ۱۴، النحل: ۹۶)
(3)… صبر کرنے والوں کو بے حساب اجر ملے گا۔ (پ۲۳، الزمر: ۱۰)
(4)…صبر کرنے والوں کی جزاء دیکھ کر قیامت کے دن لوگ حسرت کریں گے۔(معجم الکبیر، ۱۲ / ۱۴۱، الحدیث: ۱۲۸۲۹)
(5)…صبر کرنے والے رب کریم عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے درود اور رحمت پاتے ہیں۔ (پ۲، البقرۃ: ۱۵۷)
(6)… صبر کرنے والے اللہ تعالیٰ کو محبوب ہیں۔(پ۴، آل عمران: ۱۴۶)
(7)… صبر آدھا ایمان ہے۔(مستدرک، کتاب التفسیر، الصبر نصف الایمان، ۳ / ۲۳۷، الحدیث: ۳۷۱۸)
(8)… صبر جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے۔ (احیاء علوم الدین، کتاب الصبر والشکر، بیان فضیلۃ الصبر، ۴ / ۷۶)
(9)…صبر کرنے والے کی خطائیں مٹا دی جاتی ہیں۔(ترمذی، کتاب الزہد، باب ما جاء فی الصبر علی البلاء، ۴ / ۱۷۹، الحدیث: ۲۴۰۷)
(10)…صبر ہر بھلائی کی کنجی ہے۔(شعب الایمان، السبعون من شعب الایمان، فصل فی ذکر ما فی الاوجاع۔۔۔ الخ، ۷ / ۲۰۱، رقم: ۹۹۹۶) ۔ ان اقوال سے یہ بھی معلوم ہو اکہ غیر خدا سے مدد طلب کرنا شرک نہیں ہے ۔اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :’’خدارا انصاف ! اگر آیۂ کریمہ’’ اِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُ‘‘ میں مطلق استعانت کا ذات ِالٰہی جَلَّ وَعَلا میں حصر مقصود ہو تو کیا صرف انبیاءعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامہی سے استعانت شرک ہوگی، کیا یہی غیر خدا ہیں ، اور سب اشخاص واشیاء وہابیہ کے نزدیک خدا ہیں یا آیت میں خاص انہیں کا نام لے دیا ہے کہ ان سے شرک اوروں سے روا ہے۔ نہیں نہیں ، جب مطلقا ًذات اَحَدِیَّت سے تخصیص اور غیر سے شرک ماننے کی ٹھہری تو کیسی ہی استعانت کسی غیر خدا سے کی جائے ہمیشہ ہر طرح شرک ہی ہوگی کہ انسان ہوں یا جمادات ، اَحیاء ہوں یا اموات، ذوات ہوں یاصفات، افعال ہوں یا حالات، غیر خدا ہونے میں سب داخل ہیں –
کیوں صاحب! اگرغیر خدا سے مددلینی مطلقاً محال ہے تو اس حکم الٰہی کا حاصل کیا، اور اگر ممکن ہو تو جس سے مدد مل سکتی ہے اس سے مدد مانگنے میں کیا زہرگھل گیا۔ حدیثوں کی تو گنتی ہی نہیں بکثرت احادیث میں صاف صاف حکم ہے کہ (۱) صبح کی عبادت سے استعانت کرو۔(۲) شام کی عبادت سے استعانت کرو۔(۳)کچھ رات رہے کی عبادت سے استعانت کرو۔ (۴) علم کے لکھنے سے استعانت کرو ۔(۵) سحری کے کھانے سے استعانت کرو۔(۶) دوپہر کے سونے سے استعانت و صدقہ سے استعانت کرو۔(۷) حاجت روائیوں میں حاجتیں چھپانے سے استعانت کرو”۔(فتاوی رضویہ، ۲۱ / ۳۰۵-۳۰۶)
مزید تفصیل کے لئے فتاوی رضویہ کی 21ویں جلد میں موجود رسالہ’’بَرَکَاتُ الْاِمْدَادْ لِاَہْلِ الْاِسْتِمْدَادْ‘‘ کا مطالعہ فرمائیں –
مذکورہ بالا اقوال کی روشنی میں یہ بات واضح ہو کر سامنے آجاتی ہے کہ استعانت جائز ہے -اور اس کو نا جائز کہنے والے غلط راہ پر ہیں –