محمد ابو ایوب
سیمانچل کے مشہور ہاٹوں میں سے ایک ہاٹ ہے ۔ عرف میں ہاٹ اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں ضرورت کی چیزیں خریدی بیچی جائیں ہاٹ کا رواج زمانہ قدیم سے ہے ۔ حضرت یوسف علیہ السلام کو جہاں بیچنے لے گئے تھےوہ بھی ہاٹ تھا.( بازار مصر) مکہ کا بازار عکاظ اور مدینہ کا سوق الطباخہ اور سوق المناخہ آج بھی مشہور ہے ۔ ۔حتی کہ جنتی جنت میں بھی ہر جمعہ کو ہاٹ جائینگے. مسلم شریف میں ہے ۔ان فی الجنة لسوقایاتونھاکل جمعة ۔ ترجمہ ۔بیشک جنت میں ایک بازار ہے جہاں جنتی ہر جمعہ کو آئینگے ۔ الغرض ۔ہاٹ ہر دور کی ضرورت ہے۔ ۔ ضرورت مند ہاٹ پہونچکر ضرورت کی چیزیں باسانی مناسب قیمت پر خرید بیچ لیتے ہیں ۔ ہاٹ میں ہر چیز کے بکنے کی الگ الگ جگہ ہوتی ہے مثلا ۔دھان ہاٹی۔پاٹ ہاٹی۔گوشت ہاٹی ۔سبزی ہاٹی ۔مچھلی ہاٹی ۔بکری ہاٹی۔گورو ہاٹی۔ وغیرہ وغیرہ ۔دوسری جگہوں کی طرح ہمارے سیمانچل میں بھی سیکروں چھوٹے بڑے ہاٹ لگتے ہیں ۔ مثلا۔چکلیہ ہاٹ ۔جنتا ہاٹ ۔راسہ کھوا ہاٹ۔ شاہ پور ہاٹ۔دیبی گنج ہاٹ۔پانجی پارہ ہاٹ۔ ۔ٹھاکر گنج ہاٹ ۔ رامگنج ہاٹ ۔ بہادرگنج ہاٹ ۔ لوہا گاڑا ہاٹ بائیسی ہاٹ ۔وغیرہ وغیرہ ۔ چند سال سے میں محسوس کررہا ہوں ۔ان ہاٹوں میں بکری ہاٹی ۔ گورو ہاٹی کی طرح ۔ ۔. . . . . . . دولہا ہاٹی ۔. . . . . . . . . . . . کی سخت ضرورت ہے ۔ جب دولہا بکتا ہے اور خریدا جاتا ہے۔ تو پھر دولہا ہاٹی کیوں نہیں ۔جب بکنا ہی ہے تو شان سے بکو ۔ہاٹ میں بڑے بورڈ میں لکھا ہو ۔ دولھاہاٹی ۔ نیچے جلی حروف میں لکھا ہو ۔ بکتاہے دولہا خریدنے والا چاہیئے ۔ جہاں ہر قسم کے دولہا دستیاب ہوں ۔امیر دولہا ۔غریب دولہا ۔ خاندانی دولہا ۔ عام دولہا ۔پڑھا لکھا دولہا ۔ ان پڑھ دولہا ۔ کمائی کرنے والا دولہا ۔ باپ کی کمائی پرپلنے والا دولہا ۔ سرکاری نوکری والادولہا ۔ باہر کمانے والا دولہا ۔ ۔پھر اس میں کوالیٹی ہو ۔دلی موڈل ۔بمبی موڈل ۔پنجاب موڈل ۔ کیرلا موڈل ۔ حیدر آباد موڈل ۔علاقائی موڈل۔ پھر ہر موڈل کی درجنوں ورائیٹی ہو ۔ اور تھوڑی جگہ علماء کیلئیے بھی ہو آخر وہ بھی تو بکتے ہیں ۔اسمیں بھی ورائیٹی ہو ۔اشرفی دولہا ۔ رضوی دولہا ۔ نوری دولہا ۔ برکاتی دولہا ۔عالم دولھا ۔ حافظ وقاری دولہا ۔ مفتی دولہا ۔ مدرسہ چلانے والا دولہا ۔ مدرسہ پڑھانے والا دولہا ۔ اور پھرہاٹ پہونچکر جو تصویر کھینچواتے ہیں وہ اپنی تصویر لٹکاے اور جو نہیں کھینچواتے ہیں وہ سج دھج کر خود کھڑا رہے ۔اور ہر دولہا کے قریب اسکا سرپرست ہو ۔آخر سودا تو وہی کرتے ہیں ۔بیچارہ دولہا تو اپنے بکنے کا تماشائی ہوتا ہے ۔جو روز بکتی ہے اور اپنا دام اصول کرتی ہے معاشرہ اسے طوائف کہتا ہے ۔اور جو زندگی میں ایک مرتبہ بکتا ہے اور اپنا دام وصول کرتا ہے دور جدید میں اسے بھی دولھا کہتے ہیں یا للعجب
بعض علماء تو ۔ السکوت کاالرضا ۔ کی دلیل سے دولہا کو بھی مجرم مانتےہیں اور بجامانتے ہیں ۔پھر جیسے گاے ۔بیل کی خوبیاں بیان کرتے ہیں ۔ کہ یہ گاے اتنا دودھ دیتی ہے ۔ یہ بیل ۔ہل۔ موی ۔گاڑی سب میں مضبوط ہے ۔ویسے ہی دولہے کی خوبیاں بیان کرے کہ دولہا اتنا کماتا ہے ۔اتنی زمین ہے۔فلاں شہر میں مکان ہے۔ فلاں چوک میں اسکے باپ کی دکان ہے۔ فلاں چوک میں زمین خریدی ہے ۔انہیں خوبیوں سے تو قیمت طئے ہوتی ہے کہ دولہا کی قیمت کتنی ہو ۔ٹوویلر کے قابل ہے ۔ یا فور ویلر کے قابل ہے یا جو بھی مول بھاو میں طئے ہو
اور نوکری پیشہ ۔یا نیتا ۔یا جس کے دو تین لڑکے باہر کماتے ہیں وہ ان جھمیلوں میں نہ پڑے ۔ بلکہ ہاٹ پہونچکر من پسند دولہا منھ مانگی قیمت پر خرید لے۔۔ موجودہ حالات میں محققین عصر ومدققین مغرب کو حلال۔حرام۔حمیت۔غیرت۔انسانیت۔ہمدردی ۔رواداری ۔جیسے درجنوں الفاظ جو متروک المعنی ہو چکے ہیں اسے متروک الاستعمال قرار دیدینا چاہییے اور عام بول چال۔علماء کی تقاریر ۔اور لغات کی کتابوں سے ان الفاظ کو نکال باہر کرنا چاہیے
سیمانچل کے غیور مسلمانوں اشیاء کی خریدو فروخت کے تمام شرائط لوازمات۔ خصوصیات دولہے کے خریدو فروخت میں یقینا پاے جاتے ہیں ۔توپھر ہر ہاٹ میں ایک دولہا ہاٹی کیوں نہیں جس کا ہونا بہت ضروری ہے اوراس ہاٹ کی افتتاح کیلئے جشن افتتاح منائیں جس میں علماء مشائخ اور نیتا مدعو ہوں ۔ آخریہ یہ معزز ہستیاں بھی تو بکتے ہوئے دولہا کو دیکھکر ۔ صم بکم عمی ۔ کی عملی تفسیر بن جاتے ہیں ۔بلکہ وقت ضرورت یہ حضرات خود بھی بڑی بڑی بولیاں لگا کر دولہا خرید تے بیچتے ہیں یعنی بردہ فروشی بانداز دیگر رائج الوقت ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یادرہے دولہن ہاٹی کی قطعا ضرورت نہیں ہے ۔اسلئے کہ شادی میں اصل مقصددولہن نہیں جہیز ہے ۔آپ نے جہیز کیلئے دولہن کو ٹھکراتے دیکھا ہوگا مگر کہیں دولہن کی وجہ سے جہیز کو ٹھکراتے ہوے نہیں دیکھا ہوگا
یوں بھی دور حاضرمیں مروجہ دینی جلسے سے دولہن ہاٹی کی کمی کافی حد تک پوری ہو جاتی ہے اسلئے میں اسکا مخالف ہوں