فیصل قادری گنوری
ہر اک ہے، اپنا، بے گانہ ! علی کا
جسے دیکھو ہے مستانہ علی کا
ہمارے سامنے کیا آئے مشکل
ہمارا دل ہے کاشانہ علی کا
نہیں ڈرتا جہاں کے شیر سے وہ
جو ہو جاتا ہے دیوانہ علی کا
جہاں خم گردنیں ہیں اولیا کی
ہے وہ دربارِ شاہانہ علی کا
جِسے فردوس کہتا ہے زمانہ
اُسے کہئے جلو خانہ علی کا
وہ ہو بغداد ، مارہرا ، بدایوں
جدھر دیکھو ہے میخانہ علی کا
خدا کا شکر ہے رہتا ہے فیصل
زباں پر نام روزانہ علی کا