غزل گوشہ خواتین

نظم: کتنا اچھا لگتا ہے

نتیجۂ فکر: گل گلشن، ممبئی

چاند ہے تنہا تنہا سا
رات بھی کتنی اکیلی ہے
رات کی تاریکی میں کھو جانا
کتنا اچھا لگتا ہے
میں بھی چند خواب سمیٹے رات کی گود میں آ بیٹھی ہوں
جاگتی آنکھوں میں سپنے سمونا
کتنا اچھا لگتا ہے
تنہا رات اور تنہا میں
دونوں باتیں کرتے ہیں
یوں تنہائی میں باتیں کرنا
کتنا اچھا لگتا ہے
تاروں کی جھلمل بھی جگتی پھر سو جاتی ہے
ان تاروں کو تکتے رہنا
کتنا اچھا لگتا ہے
دنیا کی فریب و مکاری سے
یہ بے جان نظارے بہتر ہیں
سب سے چھپ کر ان میں کھونا
کتنا اچھا لگتا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے