نتیجہ فکر: سید اولاد رسول قدسی
نیویارک امریکہ
کس قدر ہے تو بے وفا سورج
شام ہوتے ہی بجھ گیا سورج
سخت حدت میں گھر گیا عالم
دے گیا دھوپ کو ہوا سورج
خود کرن مانگتی ہے تجھ سے پناہ
اوڑھ لے ابر کی ردا سورج
اب تو بربادیاں ہیں سر پہ ترے
وقت اپنا نہ تو گنوا سورج
بار غم ڈال کر زمانے پر
خوب لیتا رہا مزا سورج
جان دے کر بھی راہ سے اپنی
سرگراں سنگ کو ہٹا سورج
خود مری ذات مجھ سے روٹھ گئی
کم سے کم تو گلے لگا سورج
ہم بھی مہمان ہوں ترے گھر کے
پاس اپنے کبھی بلا سورج
قدسیؔ اکتا گیا ہے چھاؤں سے
سوزشوں میں اسے جلا سورج